کیسا عجیب
میں شہر کی ایک پررونق سڑک کے کنارے کھڑاتھا۔تیز رفتار سواریاں مسلسل میرے سامنے سے گزررہی تھیں۔وہ انسانوں کو لیے ہوئے اِدھر ے اُدھر جارہی تھیں۔جیسے وہ کسی منزل کی طرف رواں ہوں۔جیسے وہ کسی پہنچنے کی جگہ پر پہنچنا چاہتی ہوں۔
یہ دیکھ کر مجھے ایسا معلوم ہواجیسے یہ سواریاں نہیں ہیں بلکہ خدا کے فرشتے ہیں جوانسانوں کولیے ہوئے تیزی سے بھاگ رہے ہیں تاکہ جلد ازجلد تمام انسانوں کو اس کے خالق ومالک کے دربار میں پہنچادیں۔لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی منزل کی طرف جارہے ہیں ۔حالاں کہ وہ خدا کی منزل کی طرف لے جائے جارہے ہیں نہ کہ اپنی کسی منزل کی طرف۔
زندگی کیاہے،موجودہ دنیا میں امتحان کی مہلت۔موت کیا ہے ،آخرت کی دنیا میں بجبر داخلہ۔موجودہ دنیا میں ہم ٹھیک ویسے ہی ہیں جیسے طالب علم امتحان ہال میںہوتا ہے۔کوئی طالب علم صرف گھنٹہ بجنے تک امتحان ہال میں رہ سکتا ہے۔گھنٹہ بجتے ہی وہ اس میں قیام کا حق کھودیتا ہے۔اسی طرح موجودہ دنیا میں انسان صرف اس وقت تک ہے جب تک موت یاقیامت کا گھنٹہ نہ بجے۔گھنٹہ بجنے کے بعد نہ دنیا اس کی رہ جاتی ہے اورنہ وہ دنیاکا۔
انسان سمجھتا ہے کہ میں اپنی دنیا میں ہوں۔حالاں کہ وہ صرف خداکی دنیا میں ہے۔انسان کوجوکچھ ملا ہے وہ خدا کے دئے سے ملاہے۔وہ عین اسی لمحہ چھن جائے گا جب کہ خداان کو چھننے کا فیصلہ کرے۔اس کے بعد انسان اپنے آپ کو اس حال میں پائے گاکہ اس کے پاس ان چیزوں میں سے کچھ نہ ہوگاجن کو آج وہ اپنا سمجھ رہاہے۔
انسان پروہ دن آنے والا ہے جب کہ وہ بھوکا ہوگا مگر اس کے پاس کھانے کو نہ ہوگا جس سے وہ اپنی بھوک مٹائے۔وہ پیاسا ہوگا مگر اس کے پاس پانی نہ ہوگاجس سے وہ اپنے سینہ کی آگ ٹھنڈی کرے۔اس پر سخت سردی کا موسم آئے گامگر اس کے پاس گرم کپڑے نہ ہوں گے جن سے وہ اپنے بدن کو گرم کرے۔اس کو سخت گرمی کاسامنا ہوگامگر اس کو کوئی سایہ نہ ملے گاجس کے نیچے جاکر وہ ٹھنڈک حاصل کرے۔
آہ ،کیسا عجیب دن انسان پر آنے والاہے مگر وہ اس سے کتنا زیادہ غافل بنا ہواہے۔