قیمت جو ادا نہیں کی گئی

بائبل میںہے’’میں نے بانسری بجائی ،تو نے رقص نہ کیا ‘‘(متی ،11:17)۔کائنات ایک عظیم نمائش گاہ ہے۔ وہ قدرت اور حکمت اور معنویت کا ایک اتھا ہ کارخانہ ہے۔وہ اس قدر حسین ہے کہ اس کے حسن کو کسی بھی طرح لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔کائنات اپنے تمام جلووں کے ساتھ خدا کی ابدی طرب گاہ ہے۔تاہم معلوم کائنات میں صرف انسان ہی وہ مخلوق ہے جو اس طرب گاہ کوسمجھ سکتا ہے اور اس کو دیکھ کر اس کے جمال وکمال پر رقص کرسکتا ہے۔مگر وہی واحد مخلوق جس کو خدا نے اپنے دست خاص سے اس لیے بنایا تھا کہ وہ کائنات کی بے پناہ فن کاریوں کو دیکھے اوراس سے بے خودہوکر رقص کرنے لگے ،وہی سب سے زیادہ اس سے اعراض کرتا ہے۔انسان سب کچھ کرتا ہے مگروہی کام نہیں کرتا جس کو اسے سب سے زیادہ کرناچاہیے۔

تمام مخلوقات میں صرف انسان کو اس قسم کا احساس وشعور دینا ظاہر کرتا ہے کہ انسان سے اس کے خدا کو کیا مطلوب ہے۔انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ خدا کے ’’طرب پر رقص کرے‘‘۔وہ کائنات میں خدا کے کرشموں کو اس طرح پالے کہ اس پر وجد کی سی کیفیت طاری ہوجائے۔وہ بے اختیار پکار اٹھے:فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ(23:14)۔یعنی،کیسی بڑی شان ہے اللہ کی جو سب سے بہتر بنانے والا ہے ۔انسان کی اصل قیمت یہی ہے۔اگر وہ ایسا نہ کرے تو گویا وہ اس کائنات میں اپنے آپ کو بے قیمت کررہا ہے۔وہ اپنے وجود کو بے معنی بنا رہا۔ خدا نے ایک عظیم آفاتی اسٹیج بنایا اور اس میںاپنے بہترین جلووں کے ساتھ ظاہر ہوا اوریہ سب کچھ جس کے لیے کیا گیا وہ وہی تھا جس کو انسان کہا جاتا ہے۔ایسی حالت میں انسان اگر اس کی طرف سے آنکھیں بند کر لے ، اگر اس کی طرف سے حمد کا ظہور نہ ہوتویہ اتنا بڑا جرم ہے کہ اس کی جو سزابھی دی جائے وہ کم ہوگی۔

خدا کی دنیا بے حد حسین ہے۔وہ جنت کی فضائوں سے بھری ہوئی ہے۔ وہ خدا کے جمال وکمال کا آئینہ ہے۔ مگر انسان اس کے حُسن کو دیکھ نہیں پاتا۔انسان کے جہنمی سائے نے اس کو ڈھانپ رکھا ہے۔کائنات کو اس کے جنتی روپ میں دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے بنائے ہوئے جھوٹے خول سے باہر آئے۔وہ ’’انسانی دنیا ‘‘سے اوپر اٹھ کر خدائی دنیا میں جھانک سکے۔انسان اپنے خول سے باہر نکلنے پر تیار نہیں ہوتا ،اس لیے وہ خدا کی دنیا کو دیکھ بھی نہیں پاتا۔

وہی انسان انسان ہے جو تمام دیکھی جانے والی چیزوں سے زیادہ کائنات کو دیکھے۔کائنات کے آئینہ میں اس کو خدا کا جلوہ نظر آنے لگے جب کسی بندۂ خدا پر یہ تجربہ گزرتا ہے تو اس کا وہ حال ہوتاہے جس کو انسانی لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔اس کی زبان خدا کی حمد وثنامیں تر رہنے لگتی ہے۔یہاں تک کہ وہ خدا کے نور میں ڈوب جاتا ہے۔اس کے الفاظ جواب دینے لگتے ہیں۔اس کا شدت احساس آنکھوں کی راہ سے بہہ نکلتا ہے۔خدا کی خدائی کے اعتراف میں اس کا پوراوجود خاکستر ہوجاتا ہے۔

انسان اپنے آپ میں اتنا مشغول ہے کہ اس کو خداکی خدائی کی خبر نہیں۔وہ اپنی ’’مصنوعات ‘‘میں اتنا الجھا ہواہےکہ اس کو خداکی مصنوعات دکھائی نہیں دیتیں۔وہ اپنے جلووں میں اتنا گم ہے کہ اس کو خدا کے جلوے نظر نہیں آتے۔انسان کی سب سے بڑی محرومی یہی ہے اورجو شخص دنیا میں محروم ہو وہ آخرت میں پانے والا کس طرح بن سکتا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom