یہ گونگے شاہکاروں کاعجائب خانہ نہیں

تمام سفروں میں ٹرین کا سفر سب سے زیادہ تجربات سے بھر اہواہوتا ہے۔انسانی قافلوں کو لیے ہوئے تیز رفتار ایکسپریس دوڑی چلی جارہی ہے۔گاڑی کے دونوں طرف قدرت کے مناظر مسلسل ہماراساتھ دے رہے ہیں ۔اس طرح ٹرین گویا زندگی کے بڑے سفر کی علامت بن گئی ہے جو نشانیوں سے بھری ہوئی ایک دنیا میں انسان طے کررہا ہے۔مگر جس طرح ٹرین کے مسافراطراف کے مناظر سے بے خبر ہوکر اپنی ذاتی دلچسپیوں میں گم رہتے ہیں ۔اسی طرح انسان موجودہ دنیا میں اپنی زندگی کے دن پورے کررہا ہے۔بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ وہ خدا کی بکھری ہوئی نشانیوں پر غور کرے۔

سورج اپنے روشن چہرہ کے ساتھ طلوع ہوتا ہے اورانسان کے اوپر اس طرح چمکتا ہے جیسے وہ کوئی پیغام سنانا چاہتا ہو۔مگر وہ کچھ کہنے سے پہلے غروب ہوجاتا ہے۔درخت اپنی ہری بھر ی شاخیں نکالتے ہیں  ،دریا اپنی موجوں کے ساتھ رواں ہوتا ہے۔یہ سب بھی کچھ کہنا چاہتے ہیں ۔مگر انسان اِن کے پاس سے گزرجاتا ہے۔بغیر اس کے کہ ان کا کوئی بول اس کے کان میں پڑاہو۔آسمان کی بلندیاں ،زمین کی رعنائیاں سب ایک عظیم ’’اجتماع ‘‘کے شرکاء معلوم ہوتے ہیں ۔مگر ان میں سے ہر ایک خاموش کھڑا ہواہے۔وہ انسان سے ہم کلام نہیں  ہوتا۔

یہ عظیم کائنات کیاگونگے شاہکاروں کا عجائب خانہ ہے۔نہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک کے پاس خدا کا ایک پیغام ہے اوراس کو وہ ابدی زبان میں نشر کررہا ہے۔مگر انسان دوسری آوازوں میں اتنا کھویا ہواہے کہ اس کو کائنات کاخاموش کلام سنائی نہیں  دیتا۔ایک سفر میں ہم ایک درمیانی اسٹیشن پر نماز پڑھنے کے لیے اترے۔اسٹیشن کے آدمیوں سے پوچھا کہ’’پچھم کس طرف ہے ‘‘۔مگر کسی کے پاس اس سادہ سے سوال کا جواب نہ تھا۔میں نے سوچا ’’سورج ایک روشن ترین حقیقت کی حیثیت سے روزانہ ان کے اوپر نکلتا ہے اورڈوبتا ہے۔مگر لوگ اپنے آپ میں اتنا گم ہیں  کہ ان کو مشرق ومغرب کا پتہ نہیں ۔پھر وہ لطیف پیغام جو سورج اوراس کے کائناتی ساتھی اپنی خاموش زبان میں نشر کررہے ہیں  ان سے کیسے کوئی باخبر ہوسکتا ہے‘‘۔

ہماری ٹرین ایک اسٹیشن پر رکی۔میں باہر آکر پلیٹ فارم پر کھڑا ہوگیا۔سورج ابھی ابھی غروب ہواتھا۔ہرے بھر ے درخت ،ان کے پیچھے سرخی ملی ہوئی روشنی اوراس کے اوپر پھیلے ہوئے بادل ،عجیب آفاقی حسن کا منظر پیدا کررہے تھے۔’’ان میں یہ حسن ان کی بلندی نے پیدا کیا ہے ‘‘میں نے سوچا۔’’مگر انسان اس بلندی تک جانے کے لیے تیار نہیں  ہوتا۔وہ اس سطح پر نہیں  جیتا جس سطح پر درخت جی رہے ہیں ۔وہ وہاں بسیرانہیں  لیتا جہاں روشنی اوربادل بسیرالیے ہوئے ہیں ۔اس کے برعکس وہ سطحی مفادات میں جیتا ہے۔وہ جھوٹی دوستی اورجھوٹی دشمنی میں سانس لیتا ہے۔کائنات کا ہم سفر بننے کے بجائے اپنے آپ کو وہ اپنی ذات کے خول میں بند کرلیتا ہے۔ایک ایسی دنیا جہاں جنتی فضائیں اس کا انتظار کررہی ہیں ۔وہاں وہ اپنے آپ کو دوزخ کے ماحول میں ڈال دیتا ہے۔انسانی دنیا کے بگاڑ کی ساری وجہ یہی ہے۔اگر وہ بلند سطح پر جینے لگے تو اس کی زندگی میں بھی وہی حسن آجائے جو قدرت کے حسین مناظر میں دکھائی دیتاہے(16مارچ 1979)۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom