حادثات کیوں
ٹرین جب پلیٹ فارم سے روانہ ہونے والی ہوتی ہے تو سیٹی دیتی ہے۔اس سیٹی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ آگاہ ہوجائیں۔اگرکچھ مسافر پلیٹ فارم پرہوں تو وہ فوراً اپنے ڈبہ میں آکر بیٹھ جائیں۔تاہم اس سیٹی کو دو زاویے سے دیکھا جاسکتا ہے۔اگر آپ محض آواز کے معنی میں لے کر اس کو شور یا صوتی آلودگی (Noise pollution) کہیں تو وہ بالکل بے معنی معلوم ہوگی لیکن اگر آپ اس کو ’’الارم‘‘کہیں تووہی چیز آپ کی نظرمیں بالکل درست اوربامعنی بن جائے گی۔
یہی معاملہ فطرت کے حادثات کا ہے۔ فطرت کے حادثات کو دوزاویہ نگاہ سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ہماری زمین پر قحط ،زلزلے ،طوفان آتے ہیں اوردوسری قسم کی آفتیں پیش آتی ہیں ۔بعض فلسفیوں نے ان کو مطلق طورپر دیکھا تو ان کو ان واقعات میںکوئی معنویت نظر نہیں آئی۔ان کو انھوں نے مسئلہ فساد (Problem of evil) کانام دے دیا۔
مگر پیغمبر ان واقعات کو ایک اورزاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔یہ دوسرازاویہ نصیحت اورعبرت کا زاویہ ہے۔اس اعتبار سے دیکھنے میں اس قسم کے تمام واقعات فطرت کا الارم بن جاتے ہیں ۔
پیغمبر کی تشریح کے مطابق یہ واقعات بڑی قیامت سے پہلے چھوٹی قیامت ہیں ۔وہ انسان کو یاد دلاتے ہیں کہ وہ ایک بڑے سخت دن کو طرف بڑھ رہا ہے جب کہ خدا اپنی عظیم طاقتوں کے ساتھ ظاہر ہوگا۔تمام انسان مجبور اوربے بس حالت میں اس کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔اس دن آدمی بھاگنا چاہے گامگر کوئی جگہ نہ ہوگی جہاں وہ بھاگ کر پناہ لے سکے۔اس دن آدمی مدد کے لیے پکارے گا مگر وہاں کوئی نہ ہوگا جو اس کی مدد کے لیے دوڑے۔
یہ واقعات جو زیادہ بڑی شکل میں قیامت میں پیش آئیں گے وہی بہت چھوٹی شکل میں موجودہ دنیا میں پیش آتے ہیں ۔وہ قیامت سے پہلے قیامت کی یاد دہانی ہیں ۔کل کے دن جو پردہ کامل طور پر پھاڑا جانے والا ہے اس کو آج ان حادثات کے ذریعہ جزئی طور پر پھاڑ دیا جاتا ہے۔
عقلمند انسان وہ ہے جو اس قسم کے واقعات کو فطرت کا الارم سمجھے نہ کہ فطرت کا بگاڑ۔ ان کو الارم کی نظر سے دیکھا جائے تو تواضع اوراصلاح کا جذبہ ابھرے گا۔اوراگر ان کو اس نظر سے دیکھا جائے کہ یہ نظام فطرت کی خرابی ہے تو اس سے ذہنی انتشار اور بغاوت کے جذبات ابھرتے ہیں ۔پہلا ذہن آدمی کو جنت کی طرف لے جاتا ہے اور دوسرا ذہن جہنم کی طرف۔