قانون کی زد
ہمارے ملک میں قانون کی پکڑسے بچنے کا یقینی ذریعہ رشوت ہے۔رشوت کے زور پر یہاں سب کچھ کیا سکتا ہے۔جس آدمی کی جیب میں کافی پیسہ موجودہے اس کے لیے کوئی بھی غلط کام کرکے اس کے قانونی انجام سے دو چار ہونے کا اندیشہ نہیں ۔
مغرب کے ترقی یافتہ ملکوں میں اگرچہ اس قسم کی رشوت کارواج نہیں ۔مگر اصل برائی وہاں بھی پوری طرح موجود ہے۔ان ملکوں میں قانون کی پکڑسے بچنے کے لیے ایک مستقل ’’کاروبار‘‘قائم ہے جس کو لوپ ہول کاروبار(Loophole Business)کہا جاتا ہے۔
امریکاکے دارالسلطنت واشنگٹن میں ایک شخص نے دیکھا کہ شہر میں بہت سی نئی آفس بلڈنگیں کھڑی ہورہی ہیں ۔اس کو تعجب ہوا۔کیوں کہ حال میں اس نے اخبار میں پڑھا تھاکہ صدر امریکانے دفتری کارکنوں میںکمی کا اعلان کیا ہے۔اس نے ایک عمارتی ٹھیکیدار سے پوچھا کہ ان عمارتوں کو کس قسم کے لوگ کرایہ پر لے رہے ہیں ۔ٹھیکیدار نے کہا کہ وہ لوگ جو لوپ ہول بزنس سے تعلق رکھتے ہیں ۔آدمی نے حیران ہوکر پوچھا کہ یہ لوپ ہول بزنس کیا ہے۔ٹھیکیدار نے جواب دیا،کیا آپ نہیں جانتے۔واشنگٹن میں دنیا کی سب سے بڑی لوپ ہول انڈسٹری ہے :
Washington has the largest loophole industry in the world.
اس نے مزید بتایا کہ امریکاکی مجلس قانون ساز قانون بناتی ہے۔اب کچھ لوگ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے اوپر ان قوانین کی زد پڑرہی ہے۔انہیں تلاش ہوتی ہے کہ ان میں ایسے قانونی شگاف (Legal loopholes)دریافت کریں جن کے ذریعے وہ ان کی پکڑسے بچ سکیں۔ان دفاتر میںہزاروں کی تعداد میں ایسے اعلیٰ دماغ بیٹھے ہوئے ہیں جن کا کام یہی قانونی شگاف تلاش کرنا ہے۔چنانچہ لوپ ہول بزنس آج امریکاکا بہت بڑا اورمنظم بزنس بن چکا ہے (دی ہند و16دسمبر1984)۔
دنیا میں انسان کا مقابلہ انسان سے ہے۔یہاں وہ جرم کرتا ہے اورپھر رشوت دے کر یا قانون میں لوپ ہول تلاش کرکے اس کی زد سے بچ جاتا ہے۔پھر اس وقت انسان کا کیا حال ہوگا جب کہ وہ اپنے آپ کو خد اکے مقابلہ میںپائے گا جہاں نہ کوئی مال کسی کے کام آنے والا ہے اورنہ کسی قسم کی قانونی مہارت۔