فطرت کی پکار
برٹرینڈرسل(1872-1970) ایک انگریز مفکر ہے۔وہ موجودہ زمانہ کابہت بڑا ملحد سمجھاجاتا ہے۔ مگراس کی سوانح عمری بتاتی ہے کہ انسان بظاہر خواہ کتنا ہی بڑا ملحد ہوجائے وہ اپنے آپ کو خدا ئی فطرت سے آزاد نہیں کرسکتا۔
برٹرینڈرسل 1952ء میں یونان گیا۔اس سفر کا تذکرہ کرتے ہوئے وہ اپنی سوانح عمری میں لکھتا ہے کہ یہ یونان کا میرا پہلا سفر تھا اورجو کچھ میں نے دیکھا وہ میرے لیے بے حد دلچسپی کا باعث تھا۔ایک پہلو سے تو مجھے خود تعجب ہوا۔ وہ عظیم اور ٹھوس کا میابیاں جن کو دیکھ کر ہر شخص متاثر ہوتا ہے میں بھی متاثر ہوا۔پھر میں نے اپنے آپ کو ایک چھوٹے سے چرچ میں پایا۔یہ اس وقت کی یادگار تھا جب کہ یونان بازنطینی سلطنت کا حصہ تھا۔مجھے سخت حیرانی ہوئی جب میں نے دیکھا کہ اس سے میں نے اپنے آپ کو اس سے زیادہ مانوس پایا جتنا کہ میں یونان کی قبل مسیح دورکی یادگاروں سے متاثر ہواتھا۔میں نے اس وقت محسوس کیاکہ مسیحی نقطہ نظر میرے اوپر اس سے زیادہ غالب ہے جتنا کہ میں نے سمجھا تھا۔یہ غلبہ عقائد پر نہیں تھابلکہ میرے احساسات پرتھا:
To my astonishment, I felt more at home in this little church than I did in the Parthenon or in any of the other Greek buildings of Pagan times. I realised then that the Christian outlook had a firmer hold upon me than I had imagined. The hold was not upon my belief, but upon my feelings. (P.561)
یہ الفاظ اس شخص کے ہیں جس کی ملحد انہ کتابوں میں سے ایک کتاب وہ ہے جس کا نام ہے : میں عیسائی کیوں نہیں (Why I Am Not A Christian) حقیقت یہ ہے کہ برٹرینڈرسل کے الفاظ اس کی فطرت کی پکار ہیں۔ ہر انسان کی فطرت میں خدا اور مذہب کا شعور ابدی طور پر پیوست ہے، وہ چاہے بھی تو اس کو اپنے اندر سے نکال نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے ملحد اورمنکر بھی اندر سے اپنے الحاد و انکار پر غیر مطمئن رہتے ہیں۔ وہ خاص لمحات میں بے تابانہ طور پر اسی چیز کی طرف دوڑ پڑتے ہیں جس کا بظاہر وہ اپنی زبان سے انکار کررہے تھے۔