کائنات کی معنویت
آرتھر کوئسلر (1905-1983)نے البرٹ آئن سٹائن(1879-1955) کاایک قول نقل کیا ہے۔اس نے کہا :’’میں یہ مانتا ہوں کہ سائنسی تحقیق میں سب سے زیادہ طاقتور اورسب سے زیادہ اعلیٰ محرک جو چیز ہوتی ہے وہ کائناتی مذہبیت ہے۔ایک معاصر سائنسی داں نے بجا طور پر کہا ہے کہ ہمارے موجودہ مادی دورمیں بھی سنجیدہ علمی تحقیق کرنے والا وہی شخص ہوسکتاہے جو گہرامذہبی آدمی ہو‘‘(ٹائمس آف انڈیا، 5اکتوبر1980)۔
I maintain that cosmic religiousness is the strongest and most noble driving force of scientific research. A contemporary has said, not unrightly, that the serious research scholar in our generally materialistic age is the only deeply religious human being.
Einstein as quoted by Koestler in Janus.
مذکورہ قول میں مذہبی ہونے کا مطلب ان دیکھی معنویت پریقین کرنا ہے۔سائنس داں جب اپنی تلاش میں نکلتا ہے تو اس وقت جو چیز اس کی رہنمابنتی ہے وہ اس کے اندر چھپا ہواعقیدہ ہوتا ہے کہ کائنات میں وحدت اورمعنویت ہے۔اگر وہ اس یقین سے خالی ہوتو کبھی وہ اپنی تلاش میں سنجیدہ نہیں ہوسکتا۔
گویا با عتبارحقیقت ایک سائنس داں اورایک مذہبی انسان میں کوئی فرق نہیں ۔ ایک مذہبی انسان کچھ اعمال کرتا ہے۔ان اعمال کا مقصد خدا کو خوش کرنا یا آخرت کی دنیا میں اس کا انعام پاناہے۔مذہبی انسان خدا کو نہیں دیکھتااورنہ آخرت کو۔مگر وہ انتہائی انہماک کے ساتھ اپنے عمل میں مشغول رہتا ہے۔ اس انہماک کی وجہ نہ دکھائی دینے والی حقیقتوں پر اس کا کامل عقیدہ ہے۔ٹھیک یہی معاملہ سائنسداں کا ہے۔وہ ساری عمر کسی حقیقت کی جستجوکرتا ہے۔یہ حقیقت نامعلوم دنیا میںچھپی ہوئی ہے۔تاہم سائنس داں پیشگی طور پر یہ یقین قائم کرلیتا ہے کہ جو چیز وہ چاہتا ہے وہ کائنات کے اندر چھپی ہوئی موجود ہے۔ اگرچہ ابھی تک وہ اس کے علم میں نہیں آئی۔
مذہب کی اصل کائنات کا معنویت پر یقین کرنا ہے۔ایسی معنویت جو بظاہر ہم کو اپنی آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتی۔سائنسی کھوج کی نوعیت بھی اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے یہی ہے۔اس دنیا میں ایک سائنس داں بھی ٹھیک اسی مقام پر کھڑاہواہے جہاں ایک مذہبی انسان —اس دنیا میں تمام اعلیٰ حقیقتیں چھپی ہوئی حقیقتیں ہیں ۔اس لیے وہ شخص زیادہ سنجیدگی کے ساتھ کسی اعلیٰ تحقیقی کام میں مصروف ہوگا جو چھپی ہوئی حقیقت پر یقین رکھنے والا ہو۔