کیسی عجیب محرومی
آپ کسی شخص کو ایک ڈالر دیں اوراس سے کہیں کہ آگے اسی قسم کے ایک کرورسکے پڑے ہوئے ہیں ۔اگر تم تیزی سے جائو تو اس پورے ذخیرہ کو حاصل کرسکتے ہو۔ایسا آدمی ڈالر دیکھ کر کیا کرے گا۔وہ ایک کو بھول کر ایک کرورکی طرف دوڑپڑے گا۔
ایسا ہی کچھ معاملہ دنیا اورآخرت کا ہے۔موجودہ دنیا آخرت کا تعارف ہے۔یہاں آدمی ان نعمتوں اورلذتوں کی ابتدائی پہچان حاصل کرتا ہے جس کو خدا نے کامل طور پر آخرت میں مہیا کررکھا ہے۔یہ اس لیے ہے تاکہ آدمی جزءسے کل کو سمجھے۔وہ قطرہ کو دیکھ کر سمندر کا اندازہ کرے۔
اگر آدمی کو دنیاکی صحیح معرفت حاصل ہوتو اس کے لیے دنیا مذکورہ ایک ڈالر کی مانند ہوجائے گی۔وہ چھوٹی لذت کو چھوڑ کر بڑی لذت کی طرف بھاگے گا۔وہ دنیا کو بھول کر آخرت کی طرف دوڑ پڑے گا۔اس کے برعکس جو شخص دنیا کی صحیح نوعیت کو نہ سمجھے وہ موجودہ دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے گا۔وہ آخرت کو بھول کر اسی دنیا کی چیزوں میں ہمہ تن مشغول ہوجائے گا۔
سورج اس لیے ہے کہ وہ آخرت کی روشنیوں سے بھری زندگی سے انسان کو متعارف کرے۔مگر انسان سورج کو دیکھ کر یہ کرتا ہے کہ وہ خود سورج ہی کو اپنا معبود بنالیتا ہے۔ پھولوں اوردرختوں کا حسن اس لیے ہے کہ وہ آدمی کو آخرت کے حسن کی یاد دلائے۔ مگر انسان پھولوں اوردرختوں کو آخری چیز سمجھ کر انہیں کے درمیان اپنی مستقل جنت بنانے لگتا ہے۔دنیا کی لذتیں اس لیے ہیں کہ انسان کو ہمہ تن آخرت کا مشتاق بنادیں مگر انسان انہیں لذتوں میں ایسا کھوتا ہے کہ اس کو آخرت کی یاد بھی نہیں آتی۔
جو شخص موجودہ دنیا کی دلفریبیوں میں گم ہوجائے اس نے اپنی آخرت کو کھو دیا۔ایسا شخص آخرت میں پہنچے گا تو وہاں کی ابدی نعمتوں کو دیکھ کر اس کا یہ حال ہوگا گویا اس کا سینہ حسرت ویاس کا قبرستان بن چکا ہے۔وہ کہے گا کہ میں بھی کیسا نادان تھا۔میں نے جھوٹے عیش کی خاطر حقیقی عیش کو کھو دیا۔میں نے جھو ٹی لذت کے پچھے حقیقی لذت گنوا دی۔ میں نے جھوٹی آزادی سے فریب کھا کر اپنے آپ کو حقیقی آزادی سے محروم کرلیا۔