زندگی کا انجام
ماستی وینکا ٹیساآئنگر(1891-1986)کنڑازبان کے مشہور مصنف ہیں ۔تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ میسورسول سروس میں شامل ہوئے۔ اپنی اعلیٰ خدمات کی بنا پر انہیں ریاست میسور کا وزیر ہونا چاہیے تھا۔مگر ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی۔چنانچہ وہ بددل ہوکر وقت سے پہلے ریٹائر ہوگئے۔
ملازمت سے الگ ہوکر انھوں نے کہانیاں اورناول لکھنا شروع کیا۔اس میدان میں انھیںغیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔آج وہ تقریباً ڈیڑھ سو کتابوں کے مصنف ہیں ۔ ان کی کتاب چکاویراراجندر (Chikka Veera Rajendra)پر حکومت ہندنے ان کو گیان پیٹھ کا خطاب اورڈیڑھ لاکھ روپیہ بطور انعام دیا ہے۔
مسٹروی سری دھر موصوف سے ملے اوران سے ایک انٹر ویو(ٹائمس آف انڈیا 12اگست 1984)لیا۔مسٹر ماستی اگرچہ اپنی تمام کتابوں کوادبی شاہکا رسمجھتے ہیں ۔مگر حکومت کے اعلیٰ انعام پروہ خوش نہ ہوسکے۔انھوں نے کہا :
I am too old to be happy
یعنی 94سال کی عمر کو پہنچ کر میں اتنا زیادہ بوڑھا ہوچکا ہوں کہ کوئی خوشی میرے لیے خوشی نہیں ۔مسٹر ماستی کی پہلی کہانی 1912میں شائع ہوئی تھی۔اس لحاظ سے انہیں اپنے ادبی کمالات کے اعتراف کے لیے 70سال انتظار کرنا پڑا۔مگر لمبی مدت کے بعد جب انہیں عزت اورانعام ملا تووہ وقت تھا جب کہ بڑھاپے نے ان کے چہرے پر جھریوں کی مالا پہنا دی تھی۔
مسٹر ماستی کی کہانی موجودہ دنیا میں ہرشخص کی کہانی ہے۔اس دنیامیں ہر آدمی کایہ قصہ ہے کہ وہ محنت کرتا ہے۔اپنی ساری طاقت لگا دیتا ہے۔بالآخر’’ستر سال ‘‘کی محنت کے بعد وہ اس قابل ہوتا ہے کہ اس کو دنیا میں عزت اورانعام ملے۔مگر ا س وقت وہ بوڑھا ہوچکا ہوتا ہے۔مزید یہ کہ کسی بھی صبح یا شام موت آجاتی ہے اوراس کو مجبور کرتی ہے کہ اپنی عمر بھر کی کمائی کو چھوڑ کر ایسی دنیا کی طرف چلا جائے جس کے لیے اس نے کچھ نہیں کیا تھا۔