نفی ذات
حضرت یوسف علیہ السلام کے قصہ کو قرآن میں احسن القصص (بہترین قصہ)کہا گیاہے(یوسف، 12:3)۔اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی زندگی اس بات کی ایک تاریخی مثال ہے کہ کس طرح خدائی مددواقعات کے دھارے کو پھیر دیتی ہے۔وہ ایک اسوء القصص کو احسن القصص بنا دیتی ہے۔
حضرت یوسف کے دشمنوں نے آپ کو کنویں میںڈال دیا۔مگر خدا نے آپ کو کنویں سے نکال کر مصر کے تخت پر پہنچا دیا۔جہاں آپ کے مخالفین نے آپ کی کہانی ختم کرنی چاہی تھی وہیں سے آپ کی ایک نئی شاندار تر کہانی شروع ہوگئی۔
مذکورہ سورہ میں حضرت یوسف کا قصہ بیان کرنے کے بعد ارشاد ہواہے :یہاں تک کہ جب پیغمبر مایوس ہوگئے اورخیال کرنے لگے کہ ان سے جھوٹ کہا گیا تھا تو ان کو ہماری مدد آپہنچی پھر ہم نے جس کو چاہا بچا لیااورہمارا عذاب مجرموں سے ٹالا نہیں جاتا (12:110)۔
اس سے معلوم ہواکہ خدا کی مدد مایوسی کی حد پر پہنچ کر ملتی ہے۔ ’’مایوسی ‘‘سے مراد وہ مقام ہے جہاں بندہ اپنا سب کچھ دے کر خالی ہوچکا ہو۔اس کے پاس مزید کچھ دینے کے لیے باقی نہ رہے۔جب وہ محسوس کرنے لگے کہ بند گی کی حد ختم ہوگئی۔اب وہ درجہ آگیا ہے جہاں سے خدائی کی حد شروع ہوتی ہے۔عین اس وقت خدا کی مدد آجاتی ہے۔ناکامی کی انتہاکامیابی کا آغاز بن جاتا ہے۔
بیج کا ختم ہونا ایک درخت کو وجود دیتا ہے۔یہی معاملہ خدا اوربندے کابھی ہے۔ آدمی خدا کی مدد کا مستحق اس وقت بنتا ہے جب کہ وہ اپنے آپ کو خداکے لیے مٹا دے۔ جہاں اعتماد خویش ختم ہو جائے وہاں سے اعتمادعلی اللہ کا آغازہوتا ہے۔
خدا بلا شبہ سب سے بڑی طاقت ہے۔مگر خدا کو پانا ہمیشہ اپنی نفی کی قیمت پر ہوتا ہے۔آدمی اپنی نفی نہیں کر پاتااسی لیے وہ خدا کو پانے والا بھی نہیں بنتا۔خدا ہرچیز کا بدل ہے۔خدا کو پانا سب کچھ کو پالینا ہے۔مگر انسان کی یہ نادانی بھی عجیب ہے کہ وہ بے کچھ کے لیے سب کچھ کو کھو دیتا ہے۔وہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش میں خدا سے محروم ہوجاتا ہے۔