راکھ کی گواہی
دہلی کا ایک محلہ ہے جس کا نام نبی کریم ہے۔یہاں ایک نوجوان مزدور اشوک نام کارہتا تھا۔5ستمبر1980کو وہ اپنے گھر کے پاس مرا ہواپایا گیا۔ اچانک دل کی حرکت بند ہونے کی وجہ سے اس کا انتقال ہوگیا۔اس واقعہ کی کوئی رپورٹ پولیس میںدرج نہ ہوسکی۔اگلے دن اشوک کی لاش جمنا کے کنارے لے جائی گئی اوراس کو جلا کر دریا رمیں بہا دیاگیا۔
بظاہر معاملہ ختم ہوچکا تھا۔اور اگر اس میں کوئی مجرمانہ سازش ہوتو اس کا پتہ لگانے کاکوئی امکان اب باقی نہیں رہاتھا۔مگر جلائی ہوئی لاش کی راکھ نے وہ بات بتادی جو معروف ذرائع نہیں بتا سکے۔
اشوک کی ماں چمیلی دیوی کو بعض وجوہ سے یہ شبہ ہواکہ اشوک طبعی موت نہیں مرا ہے بلکہ اس کے ایک دوست سریش (26سال) نے اس کو شراب میں زہردے کر مارا ہے۔ ماں نے 7ستمبر کو پولیس میں رپورٹ درج کرائی۔پولیس کے لیے اب واحد صورت یہ باقی تھی کہ وہ مردہ کی راکھ حاصل کرکے اس کی چھان بین کرے۔رپورٹ کے بعد اسی دن ایک پولیس پارٹی لاش جلانے والے گھاٹ پرپہنچی۔یہ ستمبر کی سات تاریخ تھی۔مگر خوش قسمتی سے شمشان بھومی کے مذکورہ پلیٹ فارم پر ابھی تک کوئی دوسری لاش نہیں جلائی گئی تھی۔پولیس نے راکھ جمع کی اوراس جلی ہوئی راکھ کو سنٹرل فارنسک سائنس لیبارٹری (آرکے پورم)میں جانچ کے لیے بھیج دیا۔وہاں سے چھ ماہ بعد 13مارچ 1981کو رپورٹ نے تصدیق کردی کہ مرنے والا طبعی موت نہیں مرا بلکہ زہر کے سبب سے مرا ہے۔16مارچ کو سریش کو قتل کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا (ہند ستان ٹائمس، 17مارچ 1981)۔
اخباری رپورٹر نے اس واقعہ کی روداد درج کرتے ہوئے یہ الفاظ لکھے ہیں — مرے ہوئے آدمی کوئی بات نہیں بتاتے مگران کی جلی ہوئی راکھ بتاسکتی ہے:
Dead men tell no tales, but their ashes may.
انسان ظلم کرتا ہے اور’’ریکارڈ‘‘جلا کر سمجھتا ہے کہ اس نے اپنے عمل کا ثبوت مٹا دیا۔وہ برائی کرتا ہے اوراپنی ہوشیاری اورطاقت سے اس پر پردہ ڈال کر یقین کر لیتا ہے کہ اس نے برائی کو ہمیشہ کے لیے چھپا دیا۔مگر وہ بھول جاتاہے کہ وہ اپنی بنائی ہوئی دنیا میں نہیں ہے بلکہ خداکی بنائی ہوئی دنیا میں ہے۔اورخدا نے اپنی دنیا کو اس طرح بنایا ہے کہ یہاں ہر عمل وجود میں آتے ہی کائناتی صفحہ پر اس طرح ثبت ہوجاتاہے کہ اس کے بعد اس کو مٹانا کسی کے لیے ممکن نہیں رہتا۔ہر آدمی عمل کرنے کے لیے آزاد ہے، مگر وہ اپنے عمل کا نشان مٹانے کے لیے آزاد نہیں ۔آدمی اگرا پنی اس بے بسی کو جان لے تووہ ظلم اوربرائی کے قریب بھی نہ جائے۔