انسان کی کمائی
وَيَوْمَ يُعْرَضُ الَّذِينَ كَفَرُوا عَلَى النَّارِ أَذْهَبْتُمْ طَيِّبَاتِكُمْ فِي حَيَاتِكُمُ الدُّنْيَا وَاسْتَمْتَعْتُمْ بِهَا فَالْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنْتُمْ تَسْتَكْبِرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَبِمَا كُنْتُمْ تَفْسُقُونَ (46:20)يعني،اورجس دن انکار کرنے والے لوگ آگ کے سامنے لائے جائیں گے۔تم اپنی اچھی چیزیں دنیا کی زندگی میں لے چکے اوران کو برت چکے تو آج تم ذلت کا عذاب بدلے میں پائو گے ا س وجہ سے کہ تم دنیا میں ناحق گھمنڈ کرتے تھے اوراس وجہ سے کہ تم نافرمانی کرتے تھے۔
دنیا میں آدمی کو جواسباب ملتے ہیں ۔مثلاً جسمانی طاقت ،ذہانت ،مال۔عہدہ،وسائل اورمواقع یہ سب خدا کی طرف سے ہوتے ہیں ۔وہ اس لیے دئے جاتے ہیں کہ ان سے آدمی اپنے لیے کمائی کرے۔
اس کمائی سے مرادنفسیاتی کمائی ہے اوراس کی دوقسمیں ہیں ایک وہ جس کوآیت میں کبراورفسق کہا گیا ہے۔دوسری کمائی وہ ہے جواس کے برعکس ہے۔یعنی تواضع اور شکر۔آدمی اگر ان اسباب کو پاکر گھمنڈ میں مبتلا ہوجائے۔وہ ان کو ذاتی برتری حاصل کرنے کے لیے استعمال کرے۔وہ ان کو شہرت اورلیڈری حاصل کرنے کاذریعہ بنائے۔ توگویاکہ اس نے اپنے مواقع کو ضائع کردیا۔اس کو جوسامانِ عمل دیاگیا تھا ،اس کا انجام اس نے اسی آج کی دنیا میں لے لیا۔ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں بربادی کے سوااورکچھ نہیں ۔
دوسرا آدمی وہ ہے جس کو اسباب حیات ملے تواس نے ان کو خدائی چیز سمجھ کر اپنے عجز کا اقرارکیا۔اس نے ان کو خدا کا عطیہ مان کر خدا کا شکر اداکیا۔اس نے ان اسباب کو اپنی ذات کے راستہ میں استعمال کرنے کے بجائے خداکے راستہ میں استعمال کیا۔یہ شخص وہ ہے جس نے ان مواقع کے ذریعہ آگے کا ذخیرہ فراہم کیا۔اس نے اپنے دینوی سامان کے ذریعہ آخرت کی کمائی کی۔ایسا شخص موت کے بعد اپنے بہترین ذخیرہ کو پائے گا۔اس کی کمائی جنت کے ابدی باغوں کی صورت میں اُس کی طرف لوٹادی جائے گی —موجودہ زندگی میں ہرآدمی کو یکساں طور پر مواقع دیے گئے ہیں ۔کوئی ان مواقع سے طیّبات دنیا کمارہاہے اورکوئی طیباتِ آخرت۔