قبر نہیں دروازہ
’’حافظ جی کے لڑکے کا انتقال ہوگیا ہے۔جنازہ کی نمازتیار ہے۔میں آپ کو بلانے کے لیے آیا ہوں‘‘۔سنتے ہی میں نے کتاب بند کی اوروضو کرکے ان کے ساتھ روانہ ہوگیا۔
قبرستان پہنچا تو وہاںمیرے سوا تھوڑے سے آدمی اور کھڑے تھے۔گنا تو چھوٹے بڑے سترہ آدمی تھے جن میں میت کے گھر کے افراد بھی شامل تھے۔مجھے ایک مہینہ پہلے کی بات یاد آئی جب کہ سیٹھ فضل علی کے ایک رشتہ دار کا جنازہ اسی قبرستان میں آیا تھا اور قبرستان کے خصوصی حصہ میں دفن ہوا تھا۔اس دن آدمیوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ شمار کرنا مشکل تھا۔ایسا معلوم ہوتا تھا گویابستی کی تمام مسلم آبادی نکل آئی ہے۔
میرے پہنچنے کے چند منٹ بعد محلہ کے امام صاحب نماز جنازہ کے لیے کھڑے ہوگئے۔میں نے بھی صف میں شامل ہوکر نیت باندھ لی مگر امام صاحب نے اتنی تیزی سے نماز پڑھائی کہ میں کوئی دعا بھی پوری نہ پڑھ سکا۔بس جلدی جلدی چار بار اللہ اکبر کی آواز آئی اورتھوڑی دیر بعد انھوں نے سلام پھیردیا۔لوگ اپنے جوتے پہن کر اطمینان کے ساتھ اس طرح کھڑے ہوگئے گویا ’’نماز جنازہ ‘‘کے نام سے جو کام انہیں کرنا تھا اس کو انھوں نے پوری طرح انجام دے دیا ہے۔
قبر قریب ہی تھی۔وہاں پہنچے تو معلوم ہواکہ ابھی کھودی جارہی ہے۔لوگ دودو چار چار کرکے اِدھر اُدھر کھڑے ہوگئے۔کوئی فرقہ وارانہ مظالم کی داستان سنانے لگا۔کسی نے موسم کی سختی کا ذکر چھیڑ دیا۔کوئی بازار بھائو کے متعلق اپنی معلومات پیش کرنے لگا۔غرض اِدھر اُدھر کی باتیں شروع ہوگئیں۔
میں قبر کے سامنے خاموش کھڑاتھا۔میرے ذہن میںوہ آیتیں اورحد یثیں گھوم رہی تھیں جن میں قیامت ،حشر ،جنت ،دوزخ وغیرہ کے حالات بتائے گئے ہیں ۔ایسا معلوم ہوتا تھا گویا قبر ایک کھلا ہوا دروازہ ہے جس کے سامنے کھڑے ہوکر میں دوسری دنیا کے مناظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔میرا دل بے قرار ہوگیا۔میری زبان سے نکلا ’’زندگی کا اصل مسئلہ وہ نہیں ہے جس میںلوگ الجھے ہوئے ہیں ۔بلکہ اصل مسئلہ وہ ہے جو موت کے بعد سامنے آنے والا ہے۔کاش لوگوں کو معلوم ہوتا کہ وہ اس وقت کس واقعہ کے درمیان کھڑے ہوئے ہیں ۔یہ ایک شخص کی عارضی دنیا سے حقیقی دنیا کی طرف روانگی کی تقریب ہے۔یہ قبر جو ہمارے سامنے کھو دی جارہی ہے ،یہ قبر نہیں ہے بلکہ یہ ایک دروازہ ہے جو ایک شخص کو دوسری دنیا میں داخل کرنے کے لیے کھولا گیا ہے۔جانے والا ابھی اس دروازہ میں داخل ہوکر اُس پار چلا جائے گا۔
جب بھی کوئی شخص مرتا ہے تو یہ ایک خاص وقت ہوتا ہے۔اس وقت گویا تھوڑی دیر کے لیے اس دنیا کادروازہ کھو لا جاتا ہے جو ہماری نگاہوں سے اوجھل ہے۔اگر دیکھنے والی آنکھ ہوتو اس کھلے ہوئے دروازہ سے دوسری دنیا کی جھلک صاف دیکھی جاسکتی ہے جہاں ہم میں سے ہر شخص کو ایک روز جانا ہے۔مگر آج کی دنیا کے مناظر نے لوگوں کی نگاہوں کو اس قدر الجھا رکھا ہے عین دروازہ پر کھڑے ہوکر بھی انہیں اس پار کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی۔وہ حقیقت کے انتہائی قریب پہنچ کر بھی حقیقت سے بے خبر رہ جاتے ہیں ۔