اہلیت
ایک شخص اچھے خاندان میں پیدا ہوا۔بعد کو اس کے حالات خراب ہوگئے۔معاشی اعتبار سے وہ بالکل مفلس ہوکر رہ گیا۔اس زمانہ میں اس کے تمام دوست اوررشتہ دار اس سے جدا ہوگئے۔کوئی اس کا بھی روادارنہ تھا کہ اس سے ملاقات اور سلام کلام کا تعلق رکھے۔
پھر وہ وقت آیا کہ اس کے حالات بدل گئے۔وہ اپنی بستی کا سب سے زیادہ خوش حال آدمی بن گیا۔اب اس کے پرانے دوست اوررشتہ دار اس کے پاس آنے لگے۔وہ اس کو یقین دلاتے کہ ہم تو ہمیشہ تمہارے خیر خواہ تھے۔مگر آدمی پر ان لوگوں کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔اس نے ان میں سے کسی کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔البتہ ایک شخص جو ہر حال میں اس کا ساتھی بنارہا۔اس کو اس نے بہت بڑے پیمانہ پر نوازا۔اس کو اس نے اپنا سب سے قریبی ساتھی اورمشیرکا ربنالیا۔
یہی معاملہ اللہ تعالیٰ کے یہاں بھی ہے۔اللہ تعالیٰ کے یہاں قابل قدر وہ ہے جوناموافق حالات میں قابل قدر ہونے کا ثبوت دے۔جو دعوت حق کو اس وقت پہچانے جب کہ دعوت حق ماحول میں اجنبی بنی ہوئی ہو۔جو دین خداوندی کے ساتھ ایسے حالات میں اپنے کو وابستہ کرے جب کہ دین ظاہربینوں کو بے قیمت نظر آتا ہو۔
اللہ تعالیٰ دلوں کو دیکھتا ہے نہ کہ جسموں کو۔اللہ کے یہاں حقیقت کی قدر ہے نہ کہ ظاہری دکھاوے کی۔اللہ کو وہ بندے پسند ہیں جو اس وقت جھک گئے ہوں جب کہ اس کی قوتیں ابھی غیب میں چھپی ہوئی ہیں ۔اللہ کو وہ بندے درکار ہیں جن کی بصیرت کی نگاہیں کھلی ہوئی ہوں۔اللہ کو وہ بندے درکار نہیں جن کے اندھے پن کا یہ حال ہوکہ وہ پیشانی کی آنکھ سے دکھائی دینے والی چیزوں کے سواکسی اورچیز کو دیکھ ہی نہ سکیں۔
حقیقت یہ ہے کہ نہ دینے والے دور میں دئے جانے کا فیصلہ ہوتا ہے۔پہچاننے والا وہ قرار پاتا ہے جس نے نہ پہچاننے والے حالات میں پہچاننے کا ثبوت دیاہو۔انعام کا مستحق وہ ہے جس نے اس وقت ساتھ دیاہو جب کہ لوگوں نے اس کو غیر اہم سمجھ کر اسے نظر اندازکردیاتھا۔