داعیانہ اخلاق کی ضرورت
ایک شخص تاجر کی حیثیت سے زندگی گزارنے کا فیصلہ کرے،دوسرا شخص دادا گیری کو اپنا پیشہ بنائے ہوئے ہوتو دونوں کا اخلاق یکساں نہیں ہوسکتا۔تاجر کا اخلاق اورہوگا اور داداگیری کرنے والے کا اور۔یہی معاملہ داعی کا ہے۔جو شخص یاگروہ حق کا داعی بنے ضروری ہے کہ اس کی اخلاقیات بھی اس کے مطابق ہوں۔اگر وہ زبان سے داعی ہونے کا مدعی ہومگر اس کا اخلاق غیر داعیانہ ہوتو وہ لوگوں کی نظر میں مسخرہ بن کر رہ جائے گا،وہ داعی کی حیثیت سے اپنا مقام حاصل نہیں کرسکتا۔
انتہائی لازمی طورپر ضروری ہے کہ داعی اورمدعوکے درمیان غیر دعوتی امورپر جھگڑے نہ کھڑے کیے جائیں۔غیر دعوتی جھگڑے اس فضا ہی کو ختم کردیتے ہیں جس میں داعی اپنی دعوت پیش کرے اورمدعواس کو سنجیدگی اورہمدردی کے ساتھ سنے۔
تاہم یہ دعوتی فضا داعی سے بہت بڑی قیمت مانگتی ہے۔یہ قیمت صبر ہے۔داعی کو ارادی اورشعوری طورپر یہ طے کرنا ہوتا ہے کہ وہ نقصانات اورتکلیفوں پر صبر کرے گا۔حضرت مسیح کے تمثیلی الفاظ میں مدعواگراس کا کرتا چھینے تو وہ اس کواپنا چغہ بھی دینے کے لیے تیار رہے۔مدعو اگر ایک کو س بیگار چلنے کو کہے تو وہ دوکوس بیگارچلا جائے۔تاکہ کوئی غیر متعلق جھگڑاکھڑاہوکر دونوں کے درمیان ایسی صورت نہ پیداکردے کہ سننے اورسنانے کا ماحول ہی ختم ہوجائے۔
ماں اپنے بچہ کو دواکھلانا چاہتی ہواوراس وقت بچہ کوئی دوسری ضد شروع کردے تو ماں بچہ کی اس ضد کی راہ میں حائل نہیں ہوتی کیونکہ ایسا کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ دوا کھلانے کا کام رک جائے اوربچہ اورماں کے درمیان ساری نزاع ایک غیر متعلق ضد پر ہونے لگے۔اسی طرح داعی کو چاہیے کہ مدعوکے ہر وار کو اپنے اوپر سہتارہے تاکہ دونوں کے درمیان اعتدال کی فضا قائم رہے اورداعی اپنی اصل بات کو مدعو کے دل میں اتار سکے۔مدعو گروہ سے دوسری دوسری شکایتوں پر کش مکش صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے ذہنوں میں اپنے داعی ہونے کا شعور ختم ہوگیا ہو۔جنھوں نے اپنی داعیانہ حیثیت کھودی ہو اوروہ دوسری قوموں کی طرح محض ایک قوم بن کررہ گئے ہوں۔
موجودہ زمانہ میں مسلمانوں کے اندر سے داعیانہ شعور ختم ہوگیاہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی تمام سرگرمیاں بالکل قومی بن کر رہ گئی ہیں ۔اس روش نے مسلمانوں کو خداکی نصرت سے محروم کردیاہے۔کیونکہ خدا کی نصرت دعوت الی اللہ کے لیے اٹھنے والوں کو ملتی ہے نہ کہ قومی جھگڑاکرنے والوں کو۔