عجزکی تلافی
خدا قادرمطلق ہے اورانسان عاجزمطلق۔خدا اورانسان کے درمیان جوتقسیم ہے وہ زیادہ اختیار اور کم اختیار کی نہیں ہے بلکہ اختیار اوربے اختیار ی کی ہے۔یہاں سارااختیار خداکی طرف ہے اورساری بے اختیاری انسان کی طرف۔
ایک شخص کہہ سکتاہے کہ ایسی تخلیق کا کیا جو از ہے جس میں انسان کو حقیقی طورپر کچھ دیا ہی نہ گیا ہو۔خدا کے لیے کیوں کر جائز تھا وہ ایسے انسان پیدا کرے جو سراسر عاجز ہوں ، جن کو نہ اپنے آپ پر کوئی اختیار حاصل ہواورنہ اپنے سے باہر کی دنیا پر۔
اس سوال کا صحیح جواب صرف وہ ہوسکتا ہے جس میں انسان کے عجز کی کامل تلافی موجودہو۔کامل تلافی سے کم کوئی چیز اس سوال کا حقیقی جواب نہیں بن سکتی۔کامل تلافی کا مطلب یہ ہے کہ جو جواب دیا جائے اسی سطح پر ہو جو سوال کی سطح ہے۔یعنی انسان کا عجز بذات خود اس کی بے اختیاری کی تلافی ہوجائے۔
اس سوال کا جواب قرآن میں اورپیغمبر کی تعلیمات میں واضح طور پر موجود ہے۔اوروہ خدا کی یہ رحمت خاص ہے کہ اس نے صرف مانگنے کو پانے کے لیے کافی بنادیا ہے۔آدمی اگر حقیقی طورپر خد اسے مانگنے والا بن جائے تو یقینی طورپر وہ اپنے لیے پانے والا بھی بن جائے گا۔ انسان جب ذاتی اقتدار کا مالک نہیں تو وہ دیے ہی سے پاسکتاہے۔چنانچہ خدانے اس کو اپنی طرف سے دے دیا۔حقیقی دعا کے لیے قبولیت کی ضمانت ہونایہی گویا اس کو دے دینا ہے۔
حدیث میں یہی بات ان لفظوں میں کہی گئی ہے کہ —الدَّعْوَةُ لَا تُرَدُّ (مسند احمد، حدیث نمبر13357)۔یعنی، بندہ اپنے خدا کو اگر حقیقی طورپر پکارے تو اس کی پکار کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔حضرت مسیح نے اسی بات کوان لفظوں میں فرمایا:
مانگو تو تم کو دیا جائے گا۔ڈھونڈوتو پائوگے۔دروازہ کھٹکھٹائو تو تمہارے واسطے کھولاجائے گا۔کیوں کہ جوکوئی مانگتاہے اسے ملتاہے اورجوڈھونڈتاہے وہ پاتا ہے اورجو کھٹکھٹاتاہے اس کے واسطے کھولاجائے گا۔تم میں ایسا کون ساآدمی ہے کہ اگر اس کا بیٹا اس سے روٹی مانگے تووہ اسے پتھر دے دے۔یا اگرمچھلی مانگے تواسے سانپ دے دے۔پس جب کہ تم برے ہوکر اپنے بچوں کو اچھی چیزیں دینا جانتے ہو تو تمہارا باپ جو آسمان پرہے اپنے مانگنے والوں کو اچھی چیزیں کیوں نہ دے گا(متی،7:7-11)۔