زند ہ قبرستان
میں اسپتال کے اندر کھڑا تھا۔میرے سامنے طرح طرح کے مریض تھے۔ہر مریض درد والم کی تصویر بناہواتھا کسی کے ہاتھ میں تکلیف تھی اورکسی کے پائوں میں۔کسی کے پیٹ میں درد ہورہاتھا،کسی کی پیٹھ حادثہ کاشکار ہوگئی تھی۔اسپتال کی دنیا کا ہر آدمی مصیبت زدہ تھا۔یہاں کا ہر باشندہ انسانی عجز کانمونہ پیش کررہا تھا۔
میں نے سوچا ’’جسم کی کوئی ایک بات بگڑ جاتی ہے تو آدمی کا یہ حال ہوجاتاہے۔پھر اس وقت آدمی کا کیاحال ہوگا جب کہ اس کی ساری بات بگڑ جائے گی۔جب انسان سے اس کی ہر وہ چیز چھن جائے گی جس کو وہ اپنی چیز سمجھ کر سرکشی کررہا تھا‘‘۔
پہلے زمانہ میں آدمی عبرت کے لیے قبرستان جاتا تھا۔اب اس کو عبرت کے لیے اسپتال جانا چاہیے۔قبرستان میں ’’مصیبت زدہ ‘‘زمین کے نیچے ہوتا ہے۔اوراسپتال میں مصیبت زدہ زمین کے اوپر دکھائی دیتا ہے۔قبرستان میںعبرت کی چیز کو سوچ کر تصور میں لانا پڑتا ہے۔اور اسپتال میں عبرت کی چیز بالکل زندہ حالات میں آنکھ کے سامنے موجود ہوتی ہے۔
اسپتال گویا زندہ قبرستان ہے۔اسپتال کی دنیا سراپا عبرت کی دنیا ہوتی ہے۔کوئی آدمی حادثہ کا شکار ہوکر یہاں آیا ہے۔کوئی سخت بیماری میں مبتلا ہے۔کسی کے جسم میں کوئی ضروری چیز کم ہوگئی ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کوئی شخص کراہ رہا ہے۔کوئی چیخ رہا ہے۔ غرض بے بسی وبے چارگی کے عبرت ناک مناظر ہیں جو اسپتال میں ہر طرف بکھرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔
یہ مناظراس لیے دکھائے جاتے ہیں کہ آدمی ان سے سبق لے۔وہ دوسروں کی تکلیف میں اپنی تکلیف کاعکس دیکھے۔وہ جزئی واقعہ میںکلی حقیقت کا مشاہدہ کرے۔وہ دنیا کے واقعہ میں آخرت کے واقعات کا احساس کرلے۔
ایسے مناظر ہر آدمی کے سامنے آتے ہیں ۔مگر بہت کم لوگ ہیں جو ان سے سبق لیتے ہوں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ سبق لینے کے لیے غیر کی حالت کو اپنے اوپر طاری کرنا پڑتا ہے۔جو کچھ ابھی پیش نہیں آیا اس کا احساس اس طرح کرنا پڑتا ہے گویا کہ وہ پیش آچکا ہے۔یہ مستقبل کو حال کے اندر دیکھنا ہے اور کتنے لوگ ہیں جو مستقبل کو حال کے اندر دیکھنے والی نظر رکھتے ہوں۔