خد اکی نصرت
محمد ابن اسحاق نے اپنی سیرت میں مکی دور کا یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ قریش نے نضر بن حارث اورعقبہ بن ابی معیط کو مدینہ بھیجا۔وہاں وہ یہود کے علماء سے ملے اوران سے پوچھا کہ ہم کو محمد کے بارے میں بتائو کہ ہم ان کو کیا سمجھیں۔علماء یہود نے کہا کہ ان سے تم اصحاب کہف اورذوالقرنین کا حال پوچھو۔ اگر وہ بتا دیں تو وہ نبی مرسل ہیں اور اگر نہ بتا سکیں تو وہ متقول ہیں ۔
یہ لوگ مکہ واپس آئے اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ ان چیزوں کے بارے میں ہمیں بتائیں۔آپ نے فرمایا کہ تم نے جو سوال کیا ہے اس کا جواب میں تم کو کل دوںگا:أُخْبِرُكُمْ غَدًا بِمَا سَأَلْتُمْ عَنْهُ۔آ پ نے یہ جملہ کہا مگر ان شا ء اللہ نہ فرمایا۔آپ کو خیال تھاکہ کل کے دن جبریل آئیں گے تو میں ان سے پوچھ کر بتاددں گا۔مگر انشاء اللہ نہ کہنے کی وجہ سے اگلے دن وحی نہ آئی۔یہاں تک کہ پندرہ دن تک وحی رکی رہی۔
وحی نہ آنے کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگلے دن جواب نہ دے سکے۔یہ مکہ کے مشرکین کے لیے سنہرا موقع تھا۔انھوں نے لوگوں سے کہنا شروع کیاکہ محمد نے وعدہ کیاتھا مگر وہ اپنے وعدہ کو پورانہ کرسکے۔دن پر دن گزرتے رہے اورآپ کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا۔مکہ کے مشرکین نے اس کو خوب استعمال کیا۔انھوں نے لوگوں سے کہا کہ اب ثابت ہوگیا کہ یہ پیغمبر نہیں ہیں ۔اگر وہ پیغمبر ہوتے تو ضرور اپنے وعدہ کے مطابق جواب دیتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رات دن سخت بے چینی میں گزررہے تھے۔ایک ایک لمحہ پہاڑ ہورہا تھا۔بظاہر یہ سراسر آپ کے خلاف بات تھی مگر اللہ تعالیٰ نے اس کو زبردست طور پر آپ کے موافق بنادیا۔وہ یہ کہ پندرہ دن وحی رکنے کی وجہ سے قریش نے سارے شہر میں اتنا پروپیگنڈا کیا کہ ایک ایک آدمی اس معاملہ سے باخبر ہوگیا۔ہر آدمی کو اشتیاق ہوگیا کہ وہ جانے کہ اس کی بابت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کیا کہتے ہیں ۔گویامکہ والوں نے بہت بڑے پیمانے پر سننے کی فضا بنا دی۔ چنانچہ پندرہ دن کے بعد جب سورہ کہف اتری اور اس میںاصحاب کہف اورذوالقرنین کا قصہ تفصیل سے بیان ہوا تو سارے لوگ اس کو سننے کے لیے دوڑپڑے۔سورہ کہف کے اترتے ہی وہ سارے شہر میں ایک ایک آدمی کی زبان پر تھی۔جو تبلیغ مہینوں میں ہوتی وہ صرف ایک دن میں ہوگئی — اگر اللہ چاہے تو وہ اپنے کسی بندے کی غلطی کو بھی صحت کے خانہ میں ڈال دے۔وہ اس کے ناموافق حالات کو موافق حالات میں تبدیل کر دے(البدایہ و النھایہ، جلد3، صفحہ69)۔