ہر چیز عجیب
موجودہ قسم کی چھتری لند ن میں سب سے پہلے 1749میں بنائی گئی۔اس وقت اس کا تعارف ایک شخص نے ان الفاظ میں کرایاتھا:
When opened it was like a small tent, and when shut it was all curiously jointed and would fold up to the length of a man's hand.
جب اس کو کھولا جائے توہ ایک چھوٹے خیمے کے مانند ہوجاتی ہے اورجب اس کو بند کیا جائے تو حیرت انگیز طورپر وہ پوری سمٹ جاتی ہے اورلمبائی میں ایک آدمی کے ہاتھ کے برابر ہوجاتی ہے(ٹائمس آف انڈیا،26مئی 1984)۔
موجودہ صدی کی ابتدامیں ہندستان کے ایک دیہات میں ایک زمین دار کے یہاں پہلی بار ہینڈ پمپ(hand pump) لگایا گیا۔جب اس کو چلایاگیا اورزمین سے وہ پانی کھینچ کر نکالنے لگا تو ایک دیہاتی عورت نے اس کو دیکھ کر کہا:’’آدمی صرف موت سے ہاراہے ‘‘۔یعنی آدمی سب کچھ کرسکتا ہے۔صرف ایک موت ایسی چیز ہے جس پر قابو پانا اس کے اختیار میں نہیں ۔
دوسو سال پہلے چھتری اورہینڈپمپ آدمی کوانتہائی عجیب معلوم ہوتے تھے۔مگر آج آدمی چھتری اورہینڈ پمپ کو دیکھتا ہے اوراس کے اندر کوئی استعجاب پیدا نہیں ہوتا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کو دیکھتے دیکھتے اب وہ اس کا عادی بن چکا ہے۔کوئی چیز جب باربار آدمی کے سامنے آتی ہے تو وہ اپنا انوکھا پن کھودیتی ہے۔اس کے بعد انتہائی عجیب چیز بھی اس کے لیے غیر عجیب بن کر رہ جاتی ہے۔
یہی معاملہ خداکی تخلیقات کا ہے۔موجودہ دنیا میں جو چیز بھی ہے،نہایت عجیب ہے۔ خواہ وہ ایک چھوٹی پتی ہو یا عظیم سمندر ہو،ایک بے نور ذرّہ ہویا روشن آفتاب ہو۔مگر آدمی پیداہوتے ہی ان کودیکھتا ہے اورساری زندگی ہر روز دیکھتا رہتا ہے۔اس طرح برابر دیکھتے رہنے کی وجہ سے ان کا عجوبہ پن اِس کی نظر میں ختم ہوجاتا ہے۔ان کو دیکھ کر آدمی کے اندراستعجاب پیدا نہیں ہوتا۔اگر انہیں چیزوں میں سے کسی چیز کووہ اچانک ایک روز دیکھے تو وہ احساس حیرت میں ڈوب جائے۔
یہی موجودہ دنیا میں آدمی کا امتحان ہے۔اس کو ایک درخت کو اس طرح دیکھنا ہے جیسے کہ وہ پہلی باراچانک اس کے سامنے کھڑاہوگیاہو۔اس کو ایک سورج کو اس طرح دیکھنا ہے جیسے کے وہ بالکل پہلی باراس کے سامنے چمک اٹھا ہو۔ایک چڑیا کے نغمہ کو اسے اِس طرح سننا ہے جیسے کہ اس کے کان پہلی بار اس کے چہچہے سے آشنا ہوئے ہوں۔