محرومی
فرانس میں سحرونجوم تیزی سے پھیل رہے ہیں ۔اندازہ کیا گیا ہے کہ 1984ء میں فرانس کے جن شہریوں نے ساحروں اورجوتشیوں سے رجوع کیا ان کی تعداد تقریباًآٹھ ملین ہے۔یعنی فرانس کے ہر چارآدمیوں میں سے ایک آدمی۔
فرانس میں جو تش اوررغیب دانی باقاعدہ تجارتی پیشہ بن گئے ہیں ۔چنانچہ ٹیکس کے محکمہ کے مطابق پچاس ہزار افراد باقاعدہ محکمہ ٹیکس میں اس اعتبار سے رجسٹرڈ ہیں ۔یہ تعداد فرانس میں پادریوں یاڈاکٹروں کی تعداد سے زیادہ ہے۔ان لوگوں کی آمدنی 500ملین سے لے کر600ملین ڈالر سالانہ تک ہوتی ہے۔
اے ایف پی نے پیرس سے رپورٹ دیتے ہوئے کہا ہے کہ:
With the deepening economic recession, more and more people are turning to the occult for relief for their physical and psychological ailments.
گہرے اقتصادی بحران کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ اپنی جسمانی اورنفسیاتی بیماریوں کے لیے غیب دانوں سے رجوع کررہے ہیں (ٹائمس آف انڈیا5مارچ 1985)۔
انسان کو بار باریہ تجربہ ہوتاہے کہ ظاہری مادی اسباب اس کا سہارابننے کے لیے ناکافی ہیں ۔وہ معلوم اسباب سے مایوس ہوکر نامعلوم اسباب کی طرف دوڑتاہے۔مگر نامعلوم اسباب کی تلاش میں کسی انسان کا سہاراپکڑنا سراسربے حقیقت ہے۔یہ ایسی چیز کا سہاراپکڑنا ہے جس کے اندر سہارابننے کی طاقت نہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان کا سہاراصرف ایک ہے۔اوروہ خداہے۔مادی اسباب کی بے مایگی اس لیے تھی کہ آدمی خدا کی طرف رجوع کرے۔مگر مادی اسباب کے عجزکا تجربہ اس کو ایک اورعاجز کی طرف متوجہ کردیتاہے۔حقیقت کا سراغ پانے کے بعد آدمی دوبارہ حقیقت کو کھو دیتاہے۔