قانون کی حد
26اگست 1978کو دہلی میں بھیانک جرم کا ایک واقعہ ہوا۔ایک فوجی افسر ایم ایم چوپڑاکے دو بچے سنجے (15)اورگیتا(17) انتہائی بے قصور طور پر مارڈالے گئے۔نوجوان بہن بھائیوں کے اس قتل پر ملک کا ضمیر جاگ اٹھا۔مجرمین کی تلاش شروع ہوئی۔بالآخر قتل کے دونوں مجرمین جبیر سنگھ عرف بلا (25) اورکلجیت سنگھ عرف رنگا(23)ایک ٹرین میں سفر کرتے ہوئے آگرہ اسٹیشن پر پکڑلیے گئے۔اس کے بعد دونوں پر قتل کا مقدمہ چلا۔لمبی عدالتی کارروائی کے بعد دونوں کو پھانسی دینے کا فیصلہ ہوا۔مختلف قانونی مراحل سے گزرکر بالآخر دونوں کو 31جنوری 1982کو دہلی کے تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔
ایڈیشنل سیشن جج ایم۔کے چاولانے پانچ صفحات کے فیصلہ میں دونوں کے لیے موت کا حکم دیتے ہوئے لکھا:
The ends of justice would be met only if the two accused were put to eternal sleep, thereby allowing others to live in peace.
انصاف کے مقاصد صرف اسی طرح حاصل ہوسکتے ہیں کہ دونوں مجرم ہمیشہ کی نیند سلادیے جائیں تاکہ دوسروں کو امن کے ساتھ جینے کا موقع ملے (ہندستان ٹائمس، 1 فروری1982)۔
جج کے یہ الفاظ انسانی قانون کی حدکو بہت اچھی طرح بتاتے ہیں ۔انسانی قانون کے بس میں صرف یہ ہے کہ وہ مجرم اورسماج کو ایک دوسرے سے جدا کر دے۔وہ مجرم کو اس کے جرم کی حقیقی سزانہیں دے سکتا۔ایک شخص جب کسی معصوم جان کو ناحق ذبح کردے تویہ اتنا بڑا جرم ہے کہ موجودہ محدوددنیا کی کوئی سزااس کے جرم کے برابر نہیں ہوسکتی۔دنیا کا جج بس اتنا ہی کر سکتا ہے کہ جس شخص کے اندر اس قسم کا مجرمانہ ذہن دیکھے اس کوآئندہ کے لیے سماج سے ہٹادے۔
موجودہ دنیا کی یہ محدودیت تقاضا کرتی ہے کہ اس کے بعد ایک اورلامحدود دنیا آئے جہاں یہ کمی پوری ہو۔جہاں کے جج کے امکان میں صرف یہ نہ ہو کہ وہ ظالم اورمظلوم میں جدائی کردے بلکہ وہ ظالم کو اس کے ظلم کی ایسی سزادے سکے جو انصاف کے تقاضے کو پورا کرنے والی ہو۔