خدا کی یاد
اخبار ہند ستان ٹائمس کے ایڈیٹر نے ایک فیلڈاسٹڈی (15مئی 1982)کے ذریعہ ہندستانی لوگوں کا مزاج معلوم کیا۔وہ اپنے مطالعہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ ہندستانیوں کا حال یہ ہے کہ جب کوئی مصیبت پڑتی ہے تو خداان کے یہاں سب سے اوپر ہوتا ہے۔ جب ہر چیز ٹھیک ہوتو پیسہ سب سے اوپر آجاتا ہے اورخداکو دوسرے درجہ میں پہنچادیتا ہے :
When a catastrophe strike, God is tops. When all is tranquil, money manages to push God down to the second place.
یہ بات نہ صرف ہندستانیوں کے لیے صحیح ہے بلکہ وہ عام انسانوں کے لیے بھی بڑی حدتک درست ہے۔انسان کا حال یہ ہے کہ تکلیف اوربے بسی کے لمحات میں وہ سب سے زیادہ خدا کو یاد کرتا ہے۔اس وقت اس کی ساری توجہ خداکی طرف لگ جاتی ہے۔مگر جب حالات اچھے ہوں اورکوئی پریشانی سامنے نہ ہوتو وہ اپنے مادی مفادات کو اپنی تمام توجہ کا مرکز بنالیتا ہے۔
مگر اس قسم کی خدا پرستی خدا پرستی نہیں ۔وہ صرف آدمی کے اس جرم کو بتاتی ہے کہ وہ اپنے رب کو بھولا ہواتھا۔وہ وقت جب کہ اسے خداکو یاد کرنا چاہیے تھا اس وقت اس نے خدا کو یاد نہیں کیا۔یہاں تک کہ خدانے اس کی حقیقت اس پر کھول دی۔اس کی آنکھ سے غفلت کا پردہ ہٹ گیا۔جب ایسا ہواتو وہ گھبراکر خداکو پکارنے لگا۔
انسان ایک آزاد اوربااختیار مخلوق ہے۔اس سے آزادا نہ خداپرستی مطلوب ہے نہ کہ مجبورانہ۔ انسان کا یاد کرنا وہ یاد کرنا ہے جب کہ اس نے راحت کے لمحات میں خداکو یاد کیاہو۔راحت کے وقت خداکو بھلائے رکھنا اورجب مصبیت آئے تو خدا کی طرف دوڑنا ایک ایسا عمل ہے جس کی خداکے یہاں کوئی قیمت نہیں ۔
پھر یہ واقعہ بتاتا ہے کہ جو لوگ دولت کو سب سے بڑادرجہ دئے ہوئے ہیں وہ جھوٹے معبود کو اپنامعبود بنائے ہوئے ہیں ۔جو چیز مصیبت کے وقت آدمی کا سہارانہ بنے،جس کو آدمی خود نازک لمحات میں بھول جائے وہ کسی کامعبود کس طرح ہوسکتی ہے۔