پچپن سال کے بعد
طبیہ کالج (قرول باغ،دہلی ) نے ایک باررات کی کلاسیں شروع کی تھیںتاکہ ملازمت پیشہ لوگ اس میں داخلہ لے کر طبی کورس کریں اوراپنے خالی اوقات میں پریکٹس کرسکیں۔انہیں داخلہ لینے والوں میں سے ایک مسٹر رمیش دتہ تھے۔وہ اکائونٹ آفس میں کام کرتے تھے اوراسی کے ساتھ رات کے کلاس میںشریک ہوکر بی آئی ایم ایس (B.I.M.S)کا کورس کررہے تھے۔1955 کا واقعہ ہے ،ان کے استاد ڈاکٹر انوار احمد صاحب نے ایک بار ان سے پوچھا:دتہ جی ،آپ تو ایک اچھی ملازمت میں ہیں ۔پھر آپ بی آئی ایم ایس کا کورس کیوں کررہے ہیں ۔انھوں نے جواب دیا:
’’نوکر ی پچپن سال کی ہے اورزندگی سو سال کی۔پھر نوکری سے ریٹائر ہونے کے بعد کیا کروں گا‘‘۔کہنے والے نے زندگی کی جو تقسیم موجود ہ دنیا کے اعتبار سے کی ہے وہی تقسیم وسیع تر معنوں میںدنیا اورآخرت کے اعتبار سے بھی ہے۔دنیا میںانسان کی عمر کو اگر پچپن سال سمجھیں اورآخرت کی طویل تر زندگی کو علامتی طورپر ’’سو سال ‘‘سمجھیں تو معلوم ہوگا کہ ہر آدمی وسیع تر معنوں میںاسی سوال سے دوچار ہے۔تاہم ہر آدمی کو صرف اپنے ’’55‘‘سال کی فکر ہے ،کسی کو اپنے ’’سو سال ‘‘کے بارے میں کوئی پریشانی نہیں ۔
دنیا کی ’’55سالہ ‘‘ زندگی کے لیے ہر آدمی سرگرم ہے۔ہر آدمی اپنی ساری طاقت خرچ کرکے اس کی تعمیر میں لگا ہوا ہے۔اس معاملہ میںہر آدمی اتنا زیادہ سنجیدہ ہے کہ وہ فوراً اس کے نشیب وفراز کو سمجھ لیتا ہے۔وہ اس کے کسی موقع کو کھونا کسی حال میں گوارانہیں کرتا۔
دوسری طرف ’’سو سالہ ‘‘زندگی جو موت کے بعد شروع ہوتی ہے ،اس کی کسی کو پروا نہیں ۔اس معاملہ میں آدمی نہ کچھ سوچنے کی ضرورت محسوس کرتا اور نہ کچھ کرنے کی۔یہاں کوئی یہ کہنے والا نہیں ملتا کہ — موت سے پہلے کی زندگی تو صرف ’’55سال‘‘ کی ہے اورموت کے بعد کی زندگی ’’سو سال‘‘ کی۔پھر اگر ابھی سے میں نے تیاری نہ کی تو موت کے بعد کی ’’سو سالہ زندگی ‘‘میںمیں کیاکروں گا۔کیسا عجیب ہے وہ انسان جو تھوڑی زندگی کے لیے تو بہت زیادہ کر رہا ہے مگر زیادہ زندگی کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں (26جنوری 1984)۔
غالباً یہی صورت حال ہے جس کی طرف حدیث میں ان الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے — میں نے جہنم سے زیادہ سخت چیز نہیں دیکھی جس سے بھاگنے والا سو گیا ہو۔اورمیں نے جنت سے زیادہ قیمتی چیز نہیں دیکھی جس کا چاہنے والا سوگیا ہو (سنن الترمذی، حدیث نمبر2601 )۔