موت کا حملہ
سکندر اعظم (356-323ق م)یونانی بادشاہ فلپ کالڑکا تھا۔اس نے تخت ملنے کے بعد دس سال کی مدت میں اس زمانہ کی معلوم دنیا کا بیشتر حصہ فتح کر ڈالا۔مصر کا شہر اسکندر یہ اس کے فتح مصر کی یاد گار کے طور پر اب بھی موجود ہے۔مگر بالآخر اس کا انجام کیا ہوا۔ وہ عراق کے قدیم شہر بابل کے ایک محل میں اس طرح بے بسی کے ساتھ مرگیا جس طرح ایک غریب اورکمزور آدمی اپنی جھونپڑی میں مرتا ہے۔اس نے اپنی زندگی میں جو چا ہا وہ پایا اورپھرسب کچھ پا کر خالی ہاتھ اس دنیا سے چلا گیا۔اس کی وسیع سلطنت اس کے مرنے کے بعد ا س کے تین فوجی سرداروں میں تقسیم ہوگئی۔کیونکہ اس کا واحدبیٹا اس کی زندگی ہی میں قتل کیاجا چکا تھا۔
سکندر کی عظمت کا یہ حال تھا کہ جو لیس سیزرایک بار اسپین میں سکند ر کے مجسمہ کے سامنے سے گزراتو اس کو دیکھ کر وہ بے اختیار رونے لگا۔اس نے کہا سکندر نے جو فاتحانہ کارنامے دس برس کی مدت میں انجام دیے، اس کا دسواں حصہ بھی میں اب تک انجام نہ دے سکا۔
سکند ر مخالفت کو بالکل برداشت نہیں کرتاتھا۔اس کا نظریہ تھا کہ مخالفت شروع ہوتے ہی اس کو فوراً کچل دینا چاہیے۔کہا جاتا ہے کہ سکندر کی غیر معمولی فتوحات کا باعث اس کی برق رفتاری تھی۔اچانک پہنچ کر دشمن کو دبوچ لینے کی صلاحیت اس کے اندر دنیا کے تمام جنرلوں سے زیادہ تھی ،مگر موت اس سے بھی زیادہ تیز رفتار ثابت ہوئی۔13جون323ق م کو جب موت اس کے اوپر حملہ آور ہوئی تواس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو بالکل بے بسی کے ساتھ موت کے حوالے کردے۔
موت اس لیے آتی ہے کہ وہ انسان کو بتائے کہ وہ خداکے آگے کس قدر بے بس ہے۔آدمی ہر روز اپنے چاروں طرف موت کے واقعات کو دیکھتا ہے مگر وہ اس سے کوئی سبق نہیں لیتا۔وہ زندگی کی اس سب سے بڑی حقیقت کو بھو لارہتا ہے ،یہاں تک کہ موت آکر اس سے خود مہلت کو چھین لیتی ہے کہ وہ سوچے اوراس سے سبق لے۔موت آدمی کے لیے سب سے بڑاسبق ہے۔مگر موت سے آدمی سب سے کم جو چیز لے رہا ہے وہ یہی ہے۔