توحید اورشرک
آدمی کو موجو دہ دنیا میں زندہ رہنے کے لیے ایک سہا را درکار ہے۔ہر آدمی کسی نہ کسی بڑائی میں جیتا ہے۔مومن وہ ہے جو خدا کی بڑائی میں جئے اورغیر مومن وہ ہے جو خدا کے سوا دوسری بڑائیوں میں جیتا ہو۔
قدیم زمانہ کا مشرک انسان چاند اورسورج کی بڑائی میںجیتا تھا۔موجودہ زمانہ کاما دہ پرست انسان مادی قوتوں کی بڑائی میںجی رہا ہے۔کچھ لوگ دولت کو بڑا بنا کر اس کو اپنی تلاش کا جواب بنائے ہوئے ہیں ۔کچھ لوگ انسانی اکابر کی بڑائی میں گم رہتے ہیں اوراس طرح اپنے اس فطری جذبہ کی تسکین حاصل کرتے ہیں ۔
یہ تمام کی تمام شرک کی صورتیں ہیں ۔یہ ایک حقیقی تلاش کا مصنوعی جواب ہے۔مومن وہ ہے جو فطرت کی تلاش کے سچے جواب کو پالے۔جو ظاہری چیزوں میں نہ اٹکے۔بلکہ ظاہری اور نمائشی چیزوں سے گزرکر آخر ی حقیقت تک پہنچ جائے۔
مومن انسان جب ان چیزوں کو دیکھتا ہے تو وہ ان کی ظاہری چمک سے فریب نہیں کھاتا۔یہ تمام چیزیں اس کو صرف مخلوق نظر آتی ہیں ۔وہ اس کو اسی مقام عجز پر دکھائی دیتی ہیں جہاں وہ خود کھڑاہوا ہے۔مومن ان چیزوں میں سے کسی پر نہیں ٹھہرتا۔اس کا سفر جاری رہتا ہے۔یہاں تک کہ وہ خدا تک پہنچ جاتا ہے۔وہ مخلوقات سے گزرکر خالق کو پالیتا ہے۔
مومن وہ ہے جو اپنی تمام چیزوں کو خدا کا عطیہ سمجھے۔جو اپنے عجز کی تلافی خدا سے کرے۔جس کو زمین کے حسن میں خدا کا حسن دکھائی دے۔جس کو کائنات کی عظمت میں خدا کی عظمت نظر آئے۔جو تمام بڑائیوں کو خد اکا عکس سمجھتا ہو۔جو خد اکے جلووں میں اس طرح گم ہوجائے کہ اس کی حمدخوانی اس کا لذیذ ترین مشغلہ بن جائے۔
ایمان کا مطلب دراصل حاضر میں غائب کو دیکھنا ہے۔جو کچھ سامنے ہے اس میں اس چھپی ہوئی چیز کو دیکھ لینا ہے جو سامنے نہیں ہے۔جس کو یہ نظر حاصل ہوجائے اس کو اپنے چاروں طرف صرف خدا کی بڑائی دکھائی دیتی ہے۔وہ صرف خدا کو اپنا سب کچھ بنا لیتا ہے۔وہ خدا کی بڑائی میں اس طرح گم ہوجاتا ہے کہ اس کو نہ اپنی بڑائی نظر آئی اورنہ دوسروں کی بڑائی۔
دریافت
لندن سے ایک کتا ب چھپی ہے جس کا نام ہے دریافت کرنے والے :
The Discoverers: A History of man's Search to Know His World and Himself by Daniel Boorstin, Randon House, p.745
مصنف نے اس کتاب میں دریافتوں کی تاریخ کامطالعہ کیا ہے۔مختلف لوگ جنھوں نے کسی شعبۂ علم میں کوئی نئی چیز یا نیا نظریہ دریافت کیا وہ مصنف کی خصوصی توجہ کا مرکز بنے ہیں ۔مصنف دریافت کرنے والوں کی شخصیت سے اتنا متاثر ہے کہ وہ کہہ اٹھتا ہے کہ میرا ہیر ودریافت کرنے والا انسان ہے :
My hero is Man the Discoverer
یہ صرف مذکورہ مصنف کی بات نہیں بلکہ یہ عام انسانی فطرت کی بات ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ’’دریافت ‘‘ہر انسان کی محبوب ترین چیز ہے۔جو آدمی کسی نئی چیز کا انکشاف کرے وہ لوگوں کی نظر میں اعلیٰ ترین انسان کا درجہ حاصل کرلیتا ہے۔
حق کا داعی بھی ایک اعتبارسے دریافت کرنے والا (discoverer)ہوتا ہے۔وہ باطل کے مقابلہ میں حق کو دریافت کرتا ہے۔جو چیز لوگوں کومعلوم نہیں ہے اس کو معلوم کرکے لوگوں کے سامنے رکھتا ہے:عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ(96:5)۔
دریافت حقیقۃً لوگوں کی چھپی طلب کے جواب کا دوسرا نام ہے۔لوگوں کے دل میں یہ خواہش چھپی ہوئی تھی کہ وہ مواصلات (communications)کے لیے تیز رفتا ر ذریعہ پالیں۔جب ایک شخص نے تیز رفتار ذریعہ سفر دریافت کیا تو گو یا اس نے ہزاروں برس سے لوگوں کی چھپی ہوئی تمنا کو پورا کیا۔اس بنا پر وہ لوگوں کا محبوب بن گیا۔
یہی معاملہ حق کا ہے۔ہر دور میںایسا ہوتا ہے کہ بہت سے خدا کے بندے اس تلا ش میںہوتے ہیں کہ حق کیا ہے اور نا حق کیا۔صحیح کیا ہے اورغلط کیا۔اب ایک شخص جو خود بھی اس تلاش سے دوچارتھا وہ حق کو اس کی کامل صورت میں دریافت کرتاہے۔اوراس کو لوگوں کے سامنے اس طرح پیش کرتا ہے کہ وہ لوگوں کے چھپے ہوئے سوال کا جواب بن جائے۔جب ایسا شخص ظہور میں آتا ہے تو بالکل فطری طور پر وہ ان تمام لوگوں کا ’’ہیرو‘‘قرار پاتا ہے جن کو اس نے تلاش کے دلدل سے نکالا تھا — دریافت کرنے والا شخص لوگوں کی نظر میں ہیرو بن جاتا ہے اور اسی طرح حق کو دریافت کرنے والا بھی۔