31دن کے لیے
جنوری 1983 میں آندھرا پر دیش میں تلگو دیسم پارٹی بر سر اقتدار آئی تاہم16 اگست 1984کو گورنر مسٹر رام لال نے تلگو دیسم وزارت کو بر خاست کر دیا اور مسٹر نریندر بھاسکر رائو سے کہا کہ وہ کانگریس سے مل کر وزارت بنائیں۔ گورنر نے از روئے دستور یہ ہدایت کی کہ وہ 30دن کے اندر یہ ثابت کریں کہ 293 رکنی اسمبلی میں ان کی اکثریت ہے۔
اس کے بعدممبروں کو توڑنے کی کوشش شروع ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک ایک ممبر کی قیمت 20 لاکھ روپے تک لگا دی گئی (ہندستان ٹائمس، 13 ستمبر 1984 )۔ مگر معزول وزیر اعلیٰ مسٹر این ٹی رامارائو نے وزارت کی برخاستگی کے بعد اپنی پارٹی کے ممبران اسمبلی کو اپنے راما کرشنا اسٹو ڈیوز میں بند کر دیا۔ 30دن گزر گئے اور مسٹر بھا سکر رائو اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کرنے کے قابل نہ ہو سکے۔ ان کی وزارت غیر قانونی ہو گئی۔ چنانچہ نئے گورنر شنکر دیال شرما نے 16 ستمبر 1984 کو نیا حکم جاری کیا جس کے مطابق مسٹر بھا سکررائو کو وزارت چھوڑ دینی پڑی اور مسٹر این ٹی راما رائو دوبارہ حکومت کے ایوان میں داخل ہو گئے ۔
اس سلسلے میں ٹائمس آف انڈیا (19 ستمبر 1984 ) نے ایک خصوصی رپورٹ میں دکھایا ہے کہ مسٹر بھا سکر رائو نے اپنی مختصر وزارت کے دوران کیا کیا۔ انھوں نے حکومت کا ایک سو کرور روپیہ سے زیادہ کا فنڈ ریلیز کر دیا انھوں نے اسمبلی کے ممبروں کو کھلی پیشکش کردی کہ پارٹی چھوڑ کر آئو اور وزیر بن جاو۔
Defect and be a minister
اس قسم کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے اخبار مذکورہ کا نامہ نگار لکھتاہے کہ مسٹر بھاسکر رائو 31 دن تک وزیر اعلیٰ رہے۔ اس غیر یقینی مدت میں انھوں نے اس طرح عمل کیا گویا کہ وہ اس عہدہ پر ایک سو سال تک رہنے کے لیے آئے تھے:
During his 31-day uncertain career as chief minister, Mr. Bhaskara Rao behaved and acted as if he had come to stay for a hundred year.
یہی ہر آدمی کا حال ہے موجودہ دنیا میں ہر آدمی صرف ’’30 دن ‘‘ کے لیے آیا ہے مگر وہ اس طرح رہتا ہے جیسے کہ وہ ’’ سو سال ‘‘ سے پہلے یہاں سے جانے والا نہیں ۔ کیسا عجیب ہے موجودہ دنیا میں انسان کا آنا اور کیسا عجیب ہے اس کا یہاں سے جانا۔