جب پردہ کھلے گا
خدا کی طرف سے جتنے پیغمبر آئے ان سب کے ساتھ ایک ہی مشترک حادثہ پیش آیا۔وقت کے اکابر نے ان کو نظر انداز کر دیا۔جو لوگ ماحول کے اندر بڑائی کا مقام حاصل کیے ہوئے تھے انھوں نے ان کو قابل التفات نہیں سمجھا۔
وقت کے یہ اکابر سب کے سب وہ لوگ تھے جو خدا کو مانتے تھے۔وہ اس کو بھی مانتے تھے کہ خدا کی طرف سے خدا کا پیغام دینے والا آتا ہے۔ حتی کہ ان میں ایسے لوگ بھی تھے جو آنے والے پیغمبر خدا کا پہلے سے انتظار کر رہے تھے۔وہ اس کی یاد میں پُر جوش تقریریں کرتے تھے مگر جب وہ آنے والا آیا تو انھوں نے اس کو نہیں پہچانا۔ انھوں نے حقارت کے ساتھ اس کو رو کر دیا۔
چونکہ وہ تقلید آباء کی سطح پر جی رہے تھے، وہ صرف ان پچھلے پیغمبروں کو پہچان سکے جن کا نام ان کے آبائی مذہب میں شامل تھا۔ جو ان کی قومی تقلید کا حصہ بن چکا تھا۔ جو انہیں تاریخی روایات کے تسلسل میں مل رہا تھا۔ وقت کا پیغمبر ابھی ان اضافی خصوصیات سے خالی تھا اس لیے وہ ان کو دکھائی بھی نہیں دیا۔ وقت کے نمائندہ خدا کو پہچاننے کے لیے جو ہرشنا سی کی صلاحیت درکار تھی اور یہ لوگ اس سے محروم تھے ،پھر وہ وقت کے پیغمبر کو کس طرح پہچانتے۔
یہ سب کرتے ہوئے وہ مذہب کا جھنڈا بھی اٹھائے ہوئے تھے۔وہ پچھلے پیغمبروں کا مومن ہونے پر فخر کرتے تھے۔ عوام کے درمیان وہ خدا کے دین کے سب سے بڑے حامی بنے ہوئے تھے۔مگر خدا کے یہاں وہ بالکل بے قیمت قرار پائے۔کیوں کہ ان کا مذہب آباء کی تقلید کی سطح پر پیدا ہوا تھا نہ کہ حقیقت کے اعتراف کی سطح پر۔
آخرت میں جب ان پر کھلے گا کہ انھوں نے جس کو نظر انداز کیا وہی وہ تھاجس کی زبان سے خدا نے اپنا کلام جاری کیا تھا۔ جو دنیا میں خد ا کا نمائندہ بنا کر کھڑا کیا گیا تھا تو یہی واقعہ ان کی ابدی روسیا ہی کے لیے کافی ہو گا۔وہ کہیں گے کہ ہائے ہمارا ندھا پن ،ہم نے اسی کو نہ دیکھا جس کو ہمیں سب سے زیادہ دیکھنا چاہیے تھا۔ ہم نے اسی کو نہ پہچانا جس کو ہمیں سب سے زیادہ پہچاننا چاہیے تھا۔