چھوڑنے کے لیے
برطانوی دورحکومت میں ہندستان کادارالسلطنت کلکتہ تھا۔1911میں برطانیہ نے یہ فیصلہ کیاکہ دار السلطنت کوکلکتہ سے دہلی منتقل کردیا جائے۔انگریز ماہر تعمیرات سرایڈون لیوٹنس (1869-1944)نے نئے دارالسلطنت کا نقشہ بنایا۔1913میں پرانی دہلی کے جنوب میں رائے سینا پہاڑیوں کے علاقہ میں تعمیرات شروع ہوئیں۔بالآخروہ عالی شان آبادی وجود میں آئی جس کو نئی دہلی کہاجاتا ہے۔
یہ زمانہ وہ تھا جب کہ ساری دنیا میں ایک نئی سیاسی لہر آچکی تھی۔یہ قومی تحریکوں کی لہر تھی۔سیاسی افکار کی دنیامیں نئے انقلابات نے نو آبادیاتی نظام کا جو از ختم کردیا تھا۔ ہندستان میںآزادی کی تحریک تیزی سے جڑپکڑرہی تھی۔بظاہر یہ بات کھل چکی تھی کہ ہندستان میں برطانیہ کی حکومت اَب زیادہ دیر تک باقی رہنے والی نہیں ۔
نئی دہلی کی تعمیر کے بعد اسی زمانہ میں فرانس کے ایک لیڈر نے ہندستان کا دورہ کیا۔جب وہ نئی دہلی آئے اوریہاں نیا تعمیر شدہ عظیم دار السلطنت دیکھا تو انھوں نے اس پر اظہار رائے کرتے ہوئے کہا —’’انھوں نے کیسی شاندار دنیا بنائی ہے ،صرف اس لیے کہ وہ اسے چھوڑدیں:
What a magnificent world they built to leave
یہ کہانی صرف برطانیہ کی کہانی نہیں ہے بلکہ تمام انسانوں کی کہانی ہے۔یہاں ہر آدمی کا یہ حال ہے کہ وہ آرزئووں اورتمنائوں کو لیے ہوئے دنیا میں داخل ہوتا ہے۔ اپنی تمام قوتوں کا استعمال کرکے وہ اپنا ایک ’’شاندار گھر‘‘بناتا ہے۔مگر عین اس وقت جب کہ اس کی آرزئووں کاگھر بن کر مکمل ہوتا ہے،اچانک موت کا فرشتہ آجاتا ہے اور اس کو اس کی محنتوں سے بنائی ہوئی دنیا سے جدا کر کے وہاں پہنچا دیتا ہے جس کو آرتھر کوئسلر(1905-1983) نے نامعلوم ملک (Unknown Country)کا نام دیاہے۔
زندگی کی کہانی اگر اتنی ہی ہو تو وہ کیسی عجیب دردناک کہانی ہے۔مگر جس طرح دنیا کی ہر چیز اپنے جوڑے کے ساتھ مکمل ہوتی ہے۔اسی طرح موجودہ دنیا کابھی ایک تکمیلی جوڑا ہے،اوروہ جوڑاآخرت ہے۔جو شخص آخرت کو بھولا ہواہے اس کی زندگی یقیناً صرف ایک المیہ ہے۔مگر جو شخص امکان آخرت سے فائدہ اٹھائے اورموجودہ دنیا کے مواقع کو اگلی دنیا کی تعمیر میں صرف کرے اِس کے لیے موجودہ دنیا ایک نئی زیادہ کامیاب زندگی کا قیمتی زینہ بن جائے گی۔
آخرت کے بغیر انسا ن کی زندگی صرف ایک المیہ ہے۔مگر آخرت کو ملانے کے بعد وہ ایک طربیہ میں بدل جاتی ہے۔