انسان کا المیہ
خدا نے ایک دنیا بنائی ۔بے حد حسین اور انتہائی لذیزدنیا۔ خدا نے اس دنیا میں آدمی کے لیے وہ سب کچھ جمع کر دیا جس کو وہ چاہتا ہے۔ اس کے بعد خدا نے اس پر کیف دنیا میں انسان کو بسایا اور لکھ دیا کہ — انسان اس دنیا کو صرف دیکھے گا وہ اس کو پا نہ سکے گا۔
دنیا کا سکھ اور اس کی لذتیں آدمی کو اپنی طرف کھینچتی ہیں ، مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا کے سکھ اور اس کی لذتیں آدمی کے لیے نا قابل حصول ہیں ۔ ایک شخص جس کو دنیا ابھی حاصل نہ ہوئی ہو وہ اپنے کو جتنا محروم سمجھتا ہے اتنا ہی وہ شخص بھی اپنے کو محروم پاتا ہے جس کو دنیا اپنی تمام رعنائیوں کے ساتھ حاصل ہو گئی ہو۔
بمبئی کا ایک فلم پروڈیوسر ہے گل آنند۔ اس کی شادی ایک خوبصورت عورت سے ہوئی جس کا نام شوبھا تھا۔ بظاہر اس جوڑے کے پاس وہ سب کچھ تھا جس کی کوئی شحص تمنا کر سکتا ہے۔ بمبئی میں ان کے پاس کئی شاندار مکانات تھے، جہاں وہ خوشیوں کی جنت میں رہنے لگے۔مگر کچھ دنوں کے بعد انہیں ایک کمی کا احساس ہونے لگا۔ وہ دو ہونے کے باوجود ابھی تک اولاد سے محروم ہیں ۔ اس احساس نے دونوں کے درمیان ایک خاموش دوری پیدا کرنی شروع کی۔
بالآخر انھوں نے ایک مقامی یتیم خانہ سے ایک چھوٹا بچہ اور ایک چھوٹی بچی حاصل کی۔ وہ بیٹے اور بیٹی کے طور پر ان کی پرورش کر نے لگے۔ تا ہم یہ مصنوعی تدبیر ان کی محرومی کے احساس کو ختم نہ کر سکی۔ دوری یہاں تک بڑھی کہ دونوں الگ مکانوں میں رہنے لگے۔
شوبھا کے ڈاکٹروں نے تجویز کیا کہ اس کو ذہنی اختلال ہے۔ دس سال تک وہ اس مفروضہ کے تحت اس کا علاج کرتے رہے، مگر بے سود۔ بالآخر8فروری1983 کو یہ المناک کہانی ختم ہوگئی۔ شوبھا بمبئی میں پیڈار وڈ کے ’’نیلم بار ‘‘میں سولہویں منزل پر ایک اپارٹمنٹ میں رہتی تھی۔ اس نے 8 فروری کو اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ پہلے اپنے بچوں کو کھڑکی سے باہر پھینکا اور اس کے بعد خود بھی چھلانگ لگا دی۔ تینو ں نیچے گرتے ہی مر گئے۔ انگریزی اخبار کی رپورٹنگ کے مطابق شوبھا کے شوہر (گل آنند ) نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا :
I don't know the exact medical terms for my wife's mental disorders.
اپنی بیوی کے ذہنی اختلال کو بیان کرنے کے لیے متعین طبی اصطلاح مجھے معلوم نہیں (ٹائمس انڈیا، بمبئی، 9فروری1983)۔