آزمائش کاقانون

کوئی آدمی حقیقی معنوں میں مومن اورمسلم ہے یانہیں  ،اس کا فیصلہ فتنہ (آزمائش ) کے ذریعہ ہوتاہے۔اللہ کو اگرچہ ہر ایک کے دل کا حال معلوم ہے مگر اللہ کی سنت یہ ہے کہ آزمائش کے حالات پیدا کرکے ہر آدمی کے اندر کو باہر لایا جائے تاکہ اللہ آخرت میں اس کے بارے میںجو فیصلہ کرے اس سے انکارکی مجال کسی کو نہ ہو۔

آزمائش کا مطلب ایسی صورت حال آدمی کے سامنے لانا ہے جہاں حسن عمل کے تمام اضافی اسباب حذف ہوگئے ہوں ،صرف ایک ہی سبب (اللہ کا ڈر)باقی رہ گیا ہو۔ اسی لیے معمول کے حالات یاروز مرہ کے عمل میں آدمی کی آزمائش نہیں  ہوسکتی۔آزمائش کے لیے ضروری ہے کہ غیر معمولی حالات سامنے لائے جائیں۔

اگریہ دیکھنا ہوکہ آپ خوش اخلاق ہیں  یا نہیں  ،تو اس کا تجربہ ایک ایسے آدمی کے ذریعہ نہیں  کیاجاسکتاجو آپ سے نیاز مندی کی باتیں کرتاہو۔کیوں کہ نیازمندی دکھانے والے کے ساتھ تو ہر آدمی خوش اخلاقی ہی کے ساتھ پیش آتا ہے۔اسی طرح اس کا تجربہ ایک طاقتور آدمی کے ذریعہ بھی نہیں  کیا جاسکتا۔کیونکہ طاقتور شخصیت کے سامنے ہر آدمی خوش اخلاق بن جاتاہے۔کسی کی خوش اخلاقی کو جانچنے کا ذریعہ ایک ایسا شخص ہی بن سکتا ہے جو کمزور اور معمولی آدمی ہو اور اسی کے ساتھ وہ ایسے انداز میں کلام کرے جو ناگواری پیدا کرنے والا ہو۔

اسی طرح کسی کی انسانیت دوستی کی جانچ اس طرح نہیں  ہوسکتی کہ ایک شان دار اجلاس کیا جائے اوراس کے بعد اس آدمی سے کہا جائے کہ سجے ہوئے اسیٹج پر کھڑے ہوکر تم انسانیت کے موضوع پر ایک تقریر کرو۔کسی کی انسانیت دوستی کی جانچ اس وقت ہوتی ہے جب ایک بے قیمت آدمی اس کے دروازے پر پہنچتا ہے اوراس سے کہتا ہے کہ میں فلاں مصیبت میں پھنس گیا ہوں تم انسانیت کے ناتے میری مدد کرو۔کوئی شخص فیاض ہے یا نہیں  اس کا اندازہ اس وقت نہیں  ہوتاجب ایک شان دار موقع سامنے آئے اوراس میں پیسہ دے کر لوگ آناً فاناً شہرت وعزت کی منزلیں طے کر رہے ہوں۔آدمی کی فیاضی کا امتحان اس وقت ہوتا ہے جب اس کو ایک ایسی خاموش مد میں پیسہ دینا ہوجس میں اخباری شہرت کا کوئی موقع نہیں ۔کسی شخص کے انصاف کا حال اس وقت معلوم نہیں  ہوتا جب کہ متعلقہ فریق سے تعلقات خوش گوار ہوں بلکہ آدمی کی انصاف پسند ی یا بے انصافی اس وقت کھلتی ہے جب کہ دونوں فریقوں کے درمیان تلخی پیدا ہوگئی اورانصاف کرنا بظاہر اپنے حریف کو فائدہ پہنچانے کے ہم معنی بن گیا ہو۔آدمی اللہ سے ڈرتا ہے یانہیں  اس کا حقیقی اندازہ ان اعمال میں نہیں  ہوتا جو آدمی انسانو ں سے دور تسبیح ونوافل کی صورت میں کرتا ہے۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب کہ اس کا سابقہ انسانوں سے پڑے اورایک شخص کے معاملہ میں اللہ سے ڈرنا اس قیمت پر ہوکر آدمی اپنی انا کو کچلے اوراپنی مصلحتوں کو برباد کرے — آدمی معمول کے حالات میں خدا پرستی والے عمل کرتاہے۔مگر خدا جب غیر معمولی مواقع پیدا کرکے اس کی خدا پرستی کو جانچنا چاہتاہے تو عین اس وقت وہ خدا پرستی کا ثبوت دینے میں ناکام ہوجاتاہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom