خداکی قدرت
ابو العلاء المعری کا ایک شعر ہے :
تَبَارَكَتْ أَمْوَاهُ البِلَادِ بِأَسْرِهَا عِذَابٌ وَخُصَّتْ بِالمُلُوحَةِ زَمْزَمُ
’’خدا یا تیری برکت ،دنیا کی تمام نہریں میٹھا پانی لے کر بہہ رہی ہیں اورزمزم ہی کو خاص طورپر کھاری بنادیاگیا) ‘‘الدر الفريد وبيت القصيد (6303۔
یہ تمثیل کے انداز میں گہری حقیقت کا اظہار ہے۔دنیا کو اس کے بنانے والے نے اس طرح بنایا ہے کہ یہاں تمام سطحی چیزیں مزہ دار ہیں اورتمام گہری چیزیں بے مزہ ہیں ۔ اگر آپ کو اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دینا ہوتو آپ کو غصہ اورنفرت کا کڑواگھونٹ پینا پڑے گاجب کہ تنگ ظرفی کے لیے اس کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہیں کہ آدمی کے اندر جو تلخی یا کڑواہٹ پیدا ہووہ اس کودوسرے کے اوپر انڈیل دے۔اگر آپ کوکوئی حقیقی کام کرنا ہو تو آپ کو بااصول آدمی بننے کی سختی برداشت کرنی ہوگی ،جب کہ بے مقصد انسان بن کر جینے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہے کہ جہاں جیسا موقع ہووہاں اسی روش کا مظاہرہ کردیا جائے۔اگر آپ کو کسی اعلیٰ مقصد کے لیے جینا ہے تو پوری زندگی پر طرح طرح کی روک لگانی پڑے گی،جب کہ بے مقصد زندگی گزارنے کے لیے صرف یہ کرنا ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو بے لگام چھوڑدیاجائے۔
آزادی کے بعد ہندستان کی جو پہلی منتخب پارلیمنٹ بنی اس کے ممبر پروفیسر ہیریندر ناتھ مکھر جی(1907-2004) تھے۔ پارلیمنٹ کے ایک اجلاس میں شرکت کے بعد جب وہ دہلی سے کلکتہ کے لیے روانہ ہوئے تو ان پر ایک عجیب کیفیت گزری۔تیز رفتار ٹرین کی فرسٹ کلاس بوگی ان کولیے ہوئے دہلی کے جنوبی علاقہ سے گزررہی تھی۔انھوں نے دیکھا کہ ریلوے لائن کے کنارے جھگی جھونپڑیوں اورگندے محلّوں کا سلسلہ ہے جو دورتک چلاگیا ہے۔ان کو یہ سوچ کر سخت صدمہ ہواکہ آزادی کے انقلاب نے چند خوش قسمت لوگوں کو تو بہت کچھ دیا ہے مگر کروڑوں عوام کے لیے اس انقلاب کے پاس کوئی چیزنہیں ہے۔کلکتہ پہنچ کر انھوں نے سابق وزیر اعظم پنڈت جواہرلال نہروکو ایک خط لکھا جس میں اپنے مذکورہ تاثر کا ذکر کرتے ہوئے یہ درج تھا کہ جب میں دہلی کی ان غریب بستیوں سے گزراتو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ لوگ اگر مجھ سے پوچھیں کہ تمہاری آزادی سے ہم کو کیا ملاتو میرے پاس اس کا کیا جواب ہوگا۔پنڈت نہرو نے پروفیسر مکھرجی کے اس خط کو جو جواب دیا اس کا ایک فقرہ یہ تھا—’’تم اپنے حساس ہونے کی قیمت اداکررہے ہو‘‘:
You are paying the price of being sensitive.
بے ضمیر انسان کو کروڑوں جھونپڑیوں کا منظر کسی پریشانی میںمبتلا نہیں کرتا۔مگر جس شخص کا ضمیر زندہ ہو اس کو یہ گندی جھونپڑیاں اس طرح تڑپادیں گی کہ اس کا نرم گدّا اس کے لیے کانٹوں کا بستر بن جائے — اعلیٰ انسانیت ہمیشہ تلخ گھونٹ پی کر ملتی ہے جب کہ گھٹیا انسان بننے کے لیے سطحیت اورموقع پرستی کے سوا کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ۔