جہنم کا خطرہ
خدانے انسان کو اس کی بناوٹ کے اعتبار سے جنتی نفسیات کے ساتھ پیدا کیا۔ اس کے بعد اس کو موجودہ دنیا میں ڈال دیا جہاں ایسے حالات ہیں جو آدمی کے اندر جہنمی نفسیات کو ابھارتے ہیں ۔اب جو شخص اسفل سافلین میںرہتے ہوئے اپنے کو احسن تقویم کی سطح پر لے جائے ،با الفاظ دیگر جہنمی نفسیات کو ابھارنے والے ماحول میں دوبارہ اپنے اندر چھپی ہوئی جنتی نفسیات کو بیدار کرے تو وہی وہ شخص ہے جو مرنے کے بعد اللہ کے پڑوس میںاور اس کی نعمتوں میں جگہ پائے گا۔باقی لوگ دھوئیں اور آگ کی دنیا میں عذاب سہنے کے لیے چھوڑدئے جائیں گے (التین،95:1-5) ۔
موجودہ دنیا امتحان کی جگہ ہے۔اس لیے اس کو اسی ڈھنگ پر بنایا گیا ہے کہ یہاں باربار آدمی کے لیے آزمائشی حالات پیدا ہوں۔یہاں نفع اورنقصان کے معاملات ہیں جو آدمی کے اندر حرص ،طمع اورخود غرضی کے احساسات ابھارتے ہیں ۔یہاں سطحی دل چسپیاں ہیں جو آدمی کو شہوت پرستی ،نشہ بازی اور لذتیت کی طرف لے جاتی ہیں ۔یہاں ایک آدمی اوردوسرے آدمی کا مقابلہ پیش آتا ہے جس کی وجہ سے آدمی کے اندر خود پرستی اورانانیت کا شیطان جاگتا ہے۔یہاں مفادات کا ٹکرائو ہے جس کی وجہ سے غصہ ،نفرت اورکمینہ پن کے جذبات بھڑکتے ہیں ۔یہی موجودہ دنیاکا ’’اسفل سافلین ‘‘ہونا ہے۔آدمی کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس سے اوپر اٹھائے اوراپنے کو ’’احسن تقویم ‘‘کی سطح پر لے جائے جو باعتبار پیدائش اس کی حقیقی سطح ہے۔
ایک پھل اندر سے اچھا ہے یا خراب ،اس کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب کہ اسے توڑاجائے۔یہی حال انسان کا ہے۔کوئی انسان جنتی نفسیات میں جی رہا ہے یا جہنمی نفسیات میں،اس کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب کہ اس کی ہستی کو توڑاجائے۔جب آدمی کے ساتھ کسی قسم کی ناموافق صورت حال پیش آتی ہے تو اس وقت اس کی ہستی ٹوٹ جاتی ہے۔ایسے مواقع پر آدمی جو ردعمل ظاہر کرتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جنتی تقویم کی سطح پر تھا یاجہنمی تقویم کی سطح پر۔جب دو آدمیوں کے درمیان روپیہ یا جائیدار کا جھگڑا کھڑا ہوتا ہے۔ جب دوصاحب معاملہ افراد کے درمیان کوئی کھٹ پٹ پیدا ہوجاتی ہے۔جب دو الگ الگ خیال رکھنے والوں کے درمیان رائے کا اختلاف ہوجاتا ہے۔جب ایک منصب کے دو دعویداروں کے درمیان ٹکرائو شروع ہوجاتا ہے تو یہی وہ مواقع ہوتے ہیں جب کہ یہ پتہ چلتا ہے کہ آدمی حقیقت کے اعتبار سے کیا ہے۔ایسے مواقع پر جو شخص نفرت ،خود غرضی ، بے انصافی اورانانیت کا مظاہرہ کرے وہ اپنے اس عمل سے ثابت کرتا ہے کہ وہ جہنمی نفسیات میںجی رہا تھا ،وہ ابلیس اور شیطان کا پڑوسی تھا۔اس کے برعکس جس شخص کا ردعمل ان مواقع پر محبت ،بے غرضی ،انصاف پسندی اورتواضع کی صورت میں ظاہرہو وہ ثابت کررہا ہے کہ وہ جنتی نفسیات میں جی رہا ہے ،اس کے روز وشب خدا اور اس کے فرشتوں کے پڑوس میں گزرتے ہیں ۔جو شخص دنیا میں شیطان کا پڑوسی ہے ،آخرت میں بھی اس کو شیطان ہی کا پڑوس حاصل ہوگا اورجو شخص دنیا میں خدا اورفرشتوں کا پڑوسی ہے ،وہ آخرت میںبھی خدا اورفرشتوں کے پڑوس میںرہے گا۔