خرچ سے اضافہ
مسٹر رام رتن کپلا (پیدائش1918)نے 1937میں پندرہ روپیہ ماہوارکی ایک ملازمت سے اپنی زندگی کا آغاز کیا۔اب دہلی میں نرائناانڈسٹریل ایریا میں ان کی فیکٹری ہے اور آصف علی روڈ پر بہت بڑاشوروم ہے۔انھوں نے اپنے ابتدائی دورکا ایک واقعہ اس طرح بتایا۔
یہ 1945ء کی بات ہے جب کہ میں ایک میکینک کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔میں نے کافی محنت سے کام کیا اوردھیرے دھیرے 25ہزار روپئے بینک میں جمع کرلیے۔ میں بہت خوش تھاکہ میں نے کارنامہ انجام دیاہے۔اس کے بعد ایسا ہواکہ راولپنڈی کے ایک بزرگ ’’خواجہ صاحب ‘‘انہیں دنوں میرے پاس آئے۔ہمارے ان کے درمیان بہت پرانے مراسم تھے۔میں ان کی بہت عزت کرتا تھا۔انھوں نے مجھ سے میرے کام کے بارے میں پوچھا۔میں نے فخر کے ساتھ انہیں بتایا کہ میں نے 25ہزار روپیہ بچا لیا ہے جو بنک میں جمع ہے۔ مجھے امید تھی کہ وہ مجھ کو شاباش دیں گے اِس کے برعکس انھوں نے مجھ کو لعنت ملامت کی اور کہا کہ تم نے اپنا وقت خراب کیا۔ تم کو شرم آنی چاہیے کہ تمہارے پاس 25 ہزار روپیہ بے کار پڑا ہواہے ،صرف اس لیے کہ بنک کا سود ملتا رہے۔اگر تم یہ بتاتے کہ میرے اوپر بنک کا قرض ہے تو البتہ مجھے خوشی ہوتی۔تم فوراً بمبئی جائو۔ کلکتہ جائو۔وہاں جاکر کاروبار دیکھو،ایجنسی لو،روپیہ کو کام میں لاو۔
شری رام رتن کپلا نے بتایا کہ اس کے بعد میں1945-1946میں بمبئی گیا۔ وہاں ریفریجریٹر بنانے والی بڑی کمپنیوں کی ایجنسیاں لیں۔ اس کے بعد ہمارا کاروبار خوب بڑھا۔ کافی پیسہ ہاتھ آیا۔اس کے بعد میں نے بارہ روپیہ ماہوار کا گیرج(garage) چھوڑ دیا اور ایک ہزار روپیہ ماہوار کرایہ پر موجودہ شو روم لیا۔
خدا نے اپنی دنیا کا نظام کچھ اس طرح بنایا ہے کہ یہاں خرچ کرنے سے اضافہ ہوتاہے۔ آپ چند دانے ’’خرچ ‘‘کرتے ہیں تو کھیت اس کے بدلے میں آپ کو ہزاروں دانے لوٹا تا ہے۔ کاروبار میں آدمی روپیہ لگاتا ہے تو وہ کئی گنا زیادہ ہو کر اس کی طرف واپس آتا ہے۔معاشرہ میں صدقات و خیرات کی صورت میں جو خرچ کیا جاتا ہے وہ بھی اس طرح اضافہ ہو کر آدمی کی طرف لوٹتا ہے کہ اس سے سماج میں باہمی اعتماد، ایک دوسرے کا لحاظ ، حقوق کی ادائیگی، دوسرے کے معاملے کو اپنا معاملہ سمجھنا جیسے احساسات پرورش پاتے ہیں اور وہ بے شمار صورتوں میں خود دینے والے کو نفع پہنچاتے ہیں ۔
آخرت کے لیے خرچ کا معاملہ بھی یہی ہے۔ اگر آخرت کی راہ میں خرچ کریں تو وہ دس گنا سے سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ بڑھی ہوئی صورت میں آپ کی طرف لوٹا دیا جائے گا۔ آخرت کی راہ میں خرچ سے جو اضافہ ہوتا ہے وہ سب سے بڑا اضافہ ہے، کیونکہ وہ نہ صرف مقدار میں زیادہ ہے بلکہ وہ دائمی بھی ہے۔ آخرت کے سوا کوئی دوسرا اضافہ دائمی نہیں ۔