دوسرے درجہ پر
آئن سرویوچ تور جنیف (1818-1883)روس کا مشہور ناول نگار ہے۔اس کے ایک دوست نے ایک باراس کو لکھا :’’میرے نزدیک اپنے آپ کو ہمیشہ دوم درجہ میں رکھنے پر رضا مند کرلینے ہی میں زندگی کی ساری اہمیت پوشیدہ ہے ‘‘یہ بات صد فی صد درست ہے۔حقیقت یہ ہے کہ تمام اجتماعی اورقومی برائیاں اسی لیے پیدا ہوتی ہیں کہ لوگ اپنے آپ کو دوسرے کے مقابلہ میں دوم درجہ پر رکھنے کے لیے راضی نہیں ہوتے۔ہر ایک اپنے آپ کو اول درجہ پر دیکھنا چاہتا ہے۔اور جہاں ہر شخص اورہر قوم اپنے کو اول درجہ پر رکھنا چاہے وہاں لازماً یہی ہوگا کہ باہمی ٹکرائو ہو،اورکوئی دوسرے کا خیرخواہ نہ رہے۔
انسانیت کے اکثر فلسفے اسی بنیادی فکر کے گرد گھومتے ہیں ۔سماجی مفکرین کی کوششوں کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی کے سامنے کچھ ایسے اعلیٰ معیار رکھ دئے جائیں جن کو آدمی ہر حال میں اپنے سے بالا تر سمجھے ،وہ اپنی ذات کو مرکز بنانے کے بجائے ان معیاری قدروں کو اپنے فکر وتوجہ کا مرکز بنالے۔مگر عملاً کوئی فلسفی اس میں کامیاب نہ ہوسکا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جس چیز کو بھی انھوں نے اس حیثیت سے دریافت کیا کہ وہ انسان کی توجہات کا مرکز اول بنے (مثلاً امن ،محبت،خیرخواہی)وہ خود انسان کی اپنی تخلیق تھی۔انسانی ذہن کے باہر ان کاکوئی ذاتی وجود نہ تھا۔پھر اپنے تخلیق کیے ہوئے معبود کے بارے میںکوئی شخص سنجیدہ ہوتا تو کیوں ہوتا۔
اس مسئلہ کا واحد حل خداکا عقیدہ ہے۔خداایک حقیقی وجود ہے۔وہ ہماراخالق اورمالک ہے۔وہ آج بھی ایک زندہ ہستی کی حیثیت سے سارے عالم کو اپنے قبضہ میںلیے ہوئے ہے۔تمام چیزیں مکمل طورپر اس کی محتاج ہیں ،وہ کسی کا محتاج نہیں ۔ایسے خداکو ماننے کا مطلب ہی یہ ہے کہ اس کائنات میں آدمی اپنے آپ کو ’’دوسرے درجہ ‘‘پر رکھ رہا ہے۔وہ خداکو ہر اعتبار سے اول حیثیت دے کر خود ہر اعتبار سے دوسری حیثیت پر راضی ہوگیاہے۔جس آدمی کے اندر یہ خیال پوری طرح بیٹھ جائے ،جو اپنے سارے دل ودماغ کے ساتھ خداکے مقابلہ میں اپنے کو دوسرے درجہ کی حیثیت دینے پر راضی ہو جائے۔ وہ عین وہی انسان بن جاتا ہے جس کو تمام دنیا کے مفکرین تلاش کررہے ہیں مگر وہ اس کو کہیں نہیں پاتے۔
انسان کی نفسیات ایک بسیط شے ہے۔نفسیات میں تقسیم ممکن نہیں ۔اگر کسی کی نفسیات حقیقی معنوں میں یہ بن جائے کہ اس کائنات میںوہ خداکے مقابلہ میں ’’دوسرے درجہ ‘‘پر ہے تو انسانوں کے مقابلہ میں بھی اس کے اندر یہی مزاج بنے گا۔اس حقیقت واقعہ کا اعتراف کہ اس کائنات میںوہ دوسرے درجہ کی حیثیت رکھتا ہے ،اس سے ’’اول درجہ ‘‘ والا بننے کا احساس چھین لے گا۔اس کی انانیت بے نفسی میں تبدیل ہوجائے گی۔اس کی سرکشی تواضع کی صورت اختیار کرلے گی۔اس کی ڈھٹائی اعتراف کے روپ میںڈھل جائے گی۔اوریہی وہ اوصاف ہیں جو بہتر سماج بناتے ہیں ۔جہاں لوگوں کے اندر یہ مزاج آجائے وہاںنہ انفرادی جھگڑوں کاکوئی وجود ہوگااورنہ قومی جھگڑوں کا۔