اسم اعظم کیا ہے

ایک بزرگ سے ان کے شاگردوں نے پوچھا کہ اللہ کا اسم اعظم کیا ہے۔بزرگ نے فرمایا :جب آدمی کا پیٹ غذ اسے خالی ہواوراس کا دل کینہ سے خالی ہوتو وہ اللہ کے ناموں میںسے جس نام سے بھی اپنے رب کو پکارے گاوہی اسم اعظم ہوگا(تذکرۃ الاولیاء)۔ گویا اسم اعظم کا تعلق ’’اسم ‘‘سے نہیں  بلکہ کیفیت سے ہے۔اسم اعظم وہ ہے جو اعلیٰ کیفیات کے ساتھ زبان سے نکلے۔کیفیات کی عظمت کسی اسم کو اسم ِ اعظم بناتی ہے نہ کہ حروف تہجی کی عظمت۔ پیٹ خالی ہونا اس بات کی علامت ہے کہ آدمی مادیات کے غلبہ سے آزاد ہے اور دل میںکینہ نہ ہونا بتاتا ہے کہ آدمی اپنے سینہ میںکسی قسم کی نفسیاتی پیچیدگی لیے ہوئے نہیں  ہے۔جب کوئی آدمی اپنے کو مادی رونقوں سے اور انسانی شکایتوں سے اوپر اٹھا لیتا ہے تو وہ خدا کے بہت قریب ہوجاتا ہے۔اس کو خدا کے خصوصی فیضان میں سے حصہ ملنے لگتا ہے۔ایسے وقت میں خدا کے صفاتی ناموں میں سے کوئی نام جب اس کی زبان پر آتا ہے تو وہ ربانی کیفیات میں نہا یا ہواہوتا ہے۔ان کیفیات کے ساتھ جو بہترنام آدمی کی زبان سے نکلے وہی اس کے لیے اسم اعظم ہے۔

کچھ لوگ اسلام کے معاملہ کو پاک کلمات کا ایک پراسرار معاملہ سمجھتے ہیں ۔ان کاخیال ہے کہ اسلام کے کچھ خاص عربی الفاظ ہیں  جن میں طلسماتی اوصاف چھپے ہوئے ہیں ۔اگر کوئی شخص ان پاک الفاظ کو یاد کرلے اورزبان سے ان کو ادا کرے تو ان کی صرف ادائیگی سے کراماتی نتائج ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گے۔دنیا میں آل و اولاد میں برکت ہوگی اور آخرت میں جنتی محل بننے لگیں گے۔ان کے نزدیک ان بابرکت کلمات میں سب سے زیادہ اونچا ’’اسم اعظم‘‘ہے۔مگر یہ محض بے بنیاد خیال ہے جس کا کوئی ثبوت کتاب وسنت میں موجود نہیں ۔

اسم اعظم حقیقۃً حروف کے کسی مجموعہ کانام نہیں  بلکہ کیفیات کے مجموعہ کانام ہے۔اللہ کو جب کوئی بندہ اس طرح یادکرتا ہے کہ وہ ہردوسری چیز سے اپنا رخ موڑ کر صرف اس کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے۔وہ اللہ میں اپنے آپ کو اس طرح شامل کرتا ہے کہ انسانوں کے لیے اس کے دل میں خیرخواہی کے سواکوئی اورجذبہ باقی نہیں  رہتا تو اس وقت اس کی زبان سے اللہ کے لیے جو کلمات نکلتے ہیں  ،اسی کا نام اسم اعظم ہے۔اسی لیے قرآن میں کہا گیا ہے ترجمہ:’’کہو کہ تم اللہ کہہ کر پکارویارحمٰن کہہ کر پکارو،جس نام سے بھی پکاروگے تو اس کے سب نام اچھے ہیں  ‘‘(17:110)۔اللہ خالق بھی اور مالک بھی وہ رحیم بھی ہے اور اکبر بھی۔وہ سب کچھ ہے۔جس برتر نام سے بھی آدمی اس کو پکارے وہ اس کے لیے جائز ہوگا۔البتہ پکارنے والے کی زبان سے نکلنے والا ایک لفظ کبھی اس کے لیے ’’اسم اعظم‘‘بن جاتا ہے۔یہ پکارنے والے کی کیفیت پر ہوتا ہے۔اللہ کو اس کی صفتوں میں سے کسی صفت سے پکارنا کبھی سادہ اورعام حالت میں ہوتا ہے اورکبھی اس طرح ہوتا ہے کہ خدا کانام لیتے ہوئے آدمی کی شخصیت پھٹ پڑتی ہے۔خدا کا نام لینا اس کی روح میں برپا ہونے والے طوفان کی آواز ہوتا ہے۔اس طرح دل کے بھونچال کے ساتھ خداکانام لینا عام حالت میں اس کا نام لینے سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔وہ اس کی زبان سے ادا ہونے والے اسم کو اسم اعظم بنا دیتا ہے۔بندہ جب اللہ کی عظمتوں کے احساس سے سر شار ہو اور اس کی سرشاری زبان پر لفظ کی صورت میں ڈھل جائے تویہی اللہ کو اسم اعظم کے ساتھ یاد کرنا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom