بے خبر انسان
آئیوری کوسٹ(Ivory Coast) مغربی افریقہ کا ایک ساحلی ملک ہے۔یہاں بجلی افراط کے ساتھ پائی جاتی ہے۔گھروں اوردکانوں کی جگمگاہٹ کی وجہ سے اس کو افریقہ کا شوکیس کہا جاتا تھا (ٹائمس آف انڈیا 4جنوری1984)۔
دسمبر 1983میں اچانک وہ ایسا ملک بن گیاجہاں لوگ عالی شان ہوٹلوں میں موم بتی کی روشنی میں کھانا کھائیں اورگھروں اوردفتروں کو بھی موم بتی سے روشن کریں۔آئیوری کوسٹ میں 92 فیصد پن بجلی کا رواج تھا مگر بارش رک جانے کی بنا پر ڈیم سوکھ گئے اور اکثر ٹربائن کا چلنا بند ہو گیا ۔چنانچہ بجلی کی کٹوتی کا یہ عالم ہوا کہ بعض اوقات مسلسل 18گھنٹے تک بجلی غائب رہی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صنعتی پیداوارگھٹ کر 35 فیصد رہ گئی کمپیوٹر الکٹرک ٹائپ رائٹر(electric typewriter)ریفریجریٹر اور اکثر بجلی سے چلنے والی چیزیں بند رہنے لگیں۔
بہت سے بڑے بڑے تاجروں نے اس اندیشہ سے دفتر جاناچھوڑ دیا کہ کہیں وہ لفٹ میں اٹک کر نہ رہ جائیں ایک تاجر نے اپنا حال بتاتے ہوئے نیو یارک ٹائمز کے نمائندہ سے کہا کہ سالہا سال سے میرا یہ حال تھا کہ میں اپنے ائیرکنڈیشنڈ مکان سے ائیر کنڈیشنڈ کار میں اور پھر ائیر کنڈیشنڈ دفتر میں جاتا تھا میں نے کبھی یہ جانا ہی نہیں کہ حقیقۃً آئیوری کوسٹ کتنا زیادہ گرم ہے :
For years, I had gone from my air-conditioned villa to my air-conditioned car to my air-conditioned office. I never realised just how hot it really is here.
افریقہ جیسے گرم ملک میں ائیر کنڈیشنڈ ماحول میں رہنے والا تاجر گویا ایک مصنوعی دنیا میں رہ رہا تھا جب بجلی نے اس کا ساتھ چھوڑدیا اس وقت اس کو معلوم ہوا کہ اصل صورت حال اس کے برعکس تھی جس کو وہ اپنے ذہن میں بطور خود فرض کیے ہوئے تھا۔
یہی حال زیادہ بڑے پیمانے پر تمام انسانوں کا ہے انسان موجودہ دنیا میں اپنے آپ کو آزاد پاتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے وہ اس کی ملکیت ہے جب انسان کی موت آئے گی اس وقت اچانک اس کو معلوم ہوگا کہ یہ محض فریب تھا۔ اس نے امتحان کی آزادی کو استحقاق کی آزادی سمجھ لیا تھا اس نے خدا کے اثاثہ کو اپنا اثاثہ فرض کر لیا تھا وہ اپنے اعمال کے لیے خدا کے یہاں جواب دہ تھا مگر وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گیا کہ وہ خواہ کچھ بھی کرے کوئی اس سے پوچھ گچھ کرنے والا نہیں ۔