پانچ سکنڈ کا فاصلہ
3جون 1979 کو راقم الحروف میر ٹھ میں تھا۔ شام کا وقت تھا۔ میں اور مولانا شکیل احمد قاسمی صدر بازار کی سڑک پر ایک ساتھ جا رہے تھے۔
اس کے بعد اچانک ایک واقعہ ہوا۔ ہمارے سامنے ایک مکان کے آگے کا حصہ دھماکہ کے ساتھ گر پڑا۔اینٹ اور پتھر سڑک پر ڈھیر ہو گئے۔ اس وقت ہم دونوں جائے حادثہ سے بمشکل پانچ سکنڈ کی مسافت پر تھے۔ اگر ہم پانچ سکنڈ آگے ہوتے یا مکان پانچ سکنڈ بعد گرتا تو یقیناً ہم دونوں اس کی زد میں آجاتے۔ ہمارا سفر شاید درمیان ہی میں ختم ہو جاتا جس کی منزل ہم نے بہت آگے سمجھ رکھی تھی۔
میں نے سوچا آدمی اور اس کی موت کے درمیان صرف پانچ سکنڈ کا فاصلہ ہے۔ کسی بھی آدمی کے لیے ہر آن یہ اندیشہ ہے کہ اس کا پانچ سکنڈ کا سفر پورا ہو جائے اور اچانک وہ اپنے آپ کو دوسری دنیا میں پائے۔
آدمی اگر اچھی طرح اس با ت کو جان لے کہ اس کے اور موت کے درمیان صرف پانچ سکنڈ کا فاصلہ ہے تو اس کی دنیا بالکل بدل جائے۔ وہ ایک اور ہی قسم کا انسان بن جائے وہ دنیا میں رہتے ہوئے آخرت میں جینے لگے۔
زندگی کا راز یہ ہے کہ آدمی اس بات کو جان لے کہ وہ ہر وقت موت کے کنارے کھڑا ہوا ہے ایسی موت جس کے معاً بعد آدمی ،حدیث کے الفاظ میں، یا تو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ میں داخل ہو جاتا ہے یا دو زخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھے میں جا گرتا ہے۔ آدمی کا ہر قدم اس کو دو انتہائی انجام میں سے کسی ایک انجام کے قریب پہنچا رہا ہے۔ مگر انسان اتنا بے حس بنا ہوا ہے کہ اس کو اس کی خبر نہیں ۔
لوگ جھوٹی خدا پرستی پر بھروسہ کیے ہوئے ہیں حالانکہ آخرت میں صرف حقیقی خدا پرستی کسی شخص کے کام آئے گی۔ حقیقی خدا پرستی یہ ہے کہ آدمی اس طرح اللہ سے ڈرنے لگے کہ وہ اس کے ذہن پر چھا جائے وہ اس کے صبح و شام کانگراں بن جائے وہ جو کچھ کرے یہ سمجھ کر کرے کہ وہ خدا کے سامنے ایسا کر رہا ہے اس کو دنیا سے زیادہ آخرت کی فکر ستانے لگے۔