کیساعجیب
کرنا ٹک کے گورنر مسٹر گووند نرائن (1916-2012)کی لڑکی نندنی کی عمرابھی صرف 38سال تھی کہ16ستمبر 1981کو نئی دہلی میںاس کا انتقال ہوگیا۔ایک ہنستی ہوئی زندگی اچانک خاموش ہوگئی۔
نندنی بہت ذہین اور تندرست تھی۔ اس کی تعلیم خالص انگریزی طرزپر ہوئی۔ اس کے بعد اس نے امریکاسے جرنلزم (صحافت ) کی ڈگری حاصل کی۔ وہ ہندستان ٹائمس میں سینئر رپورٹر تھی۔ اپنی مختلف خصوصیات کی وجہ سے نندنی اپنے اخباری ساتھیوں کے درمیان بہت مقبول تھی۔ اس کے ایک ساتھی کے الفاظ میں نندنی کی زندگی کا نظریہ یہ تھا :
She loved life to the full and wanted to live it to the full
وہ زندگی سے آخری حد تک پیار کرتی تھی اور زندگی کے ساتھ آخری حد تک رہنا چاہتی تھی۔
نندنی کی وفات پر اس کے ساتھی رپورٹروں نے ایک یادداشت (ہندستان ٹائمس، 17 ستمبر 1918) شائع کی ہے۔اس یادداشت کے خاتمہ پروہ لکھتے ہیں — نندنی کی موت اس حقیقت کی ایک بے رحم یاد دہانی ہے کہ ہر آدمی کا ایک بے حد مقرر وقت ہے:
It is a cruel reminder of the fact that there is a deadline for everyone.
کیسی عجیب بات ہے ایک جیتی جاگتی زندگی اچانک بجھ جاتی ہے۔ ایک ہنستا ہوا چہرہ ایک لمحہ میں اس طرح ختم ہو جاتا ہے جیسے کہ وہ مٹی سے بھی زیادہ بے قیمت تھا۔ حوصلوں اور تمنائوں سے بھری ہوئی ایک روح دفعتا اس طرح منظر سے ہٹا دی جاتی ہے جیسے اس کے حوصلوں اور تمنائوں کی کوئی حقیقت ہی نہ تھی۔
زندگی کس قدر بامعنی ہے۔ مگر اس کانجام اس کو کس قدر بے معنی بنا دیتا ہے۔ آدمی بظاہر کتنا آزاد ہے مگر موت کے سامنے وہ کتنا مجبور نظر آتاہے۔ انسان اپنی خواہشوں اور تمنائوں کو کتنا زیادہ عزیز رکھتا ہے، مگر قدرت کا فیصلہ اس کی خواہشوں اور تمنائوں کو کتنی بے رحمی سے کچل دیتاہے۔
آدمی اگر صرف اپنی موت کو یاد رکھے تو وہ کبھی سرکشی نہ کرے کامیاب اجتماعی زندگی کا واحد راز یہ ہے کہ آدمی اپنی حد کے اندر رہنے پر راضی ہو جائے اور موت بلاشبہ اس حقیقت کی سب سے بہتر اور سب سے بڑی معلم ہے۔