عقل مند کون
انسان کواس کے پیدا کرنے والے نے بہترین بناوٹ کے ساتھ پیدا کیا ہے۔مگر بڑھاپاآتا ہے اوراس کی بہترین بناوٹ کو کھا جاتا ہے۔انسان کو اعلیٰ ترین لذتوں کا احساس دیاگیاہے۔مگر ہزار کوشش کے بعدجب وہ ان لذتوں کو پالیتا ہے تواس کو معلوم ہوتاہے کہ اپنی پیدائشی محدودیتوں(Limitations)کی وجہ سے وہ ان لذتوں سے لطف اندوز نہیں ہوسکتا۔انسان کو ایک ایسی زمین دی گئی ہے جو اپنی حسین فضائوں اور قیمتی سازوسامان کے ساتھ ساری کائنات میں ایک انتہائی نادراستثناء ہے مگر آدمی اس دنیا کو استعمال نہیں کرپاتا کہ موت آتی ہے اوراس کو اس کی پسند کی دنیا سے جدا کر دیتی ہے۔
ایسا کیوں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ دنیا ہماری اصل دنیا نہیں ۔اصل دنیا وہ ہے جو موت کے بعد آنے والی ہے۔موجودہ دنیا اس آئندہ آنے والی دنیا کا ابتدائی تعارف ہے۔یہ لذتوں کے اصل خزانہ کا لمحاتی تجربہ ہے۔یہ ابدی بہشت کا صرف ایک وقتی مظاہر ہ ہے۔یہ اس لیے ہے کہ آدمی حال کے آئینہ میں مستقبل کے عظیم امکانات کو دیکھے۔وہ ناقص فلاح میںکامل فلاح کاراز پالے۔
عقلمند انسان وہ ہے جس کو دنیا کایہ وقتی تجربہ اس کو ابدی دنیا کی یاد دلائے۔وہ اپنے آپ کو زندگی کے آنے والے دور کے لیے تیار کرے۔وہ اپنی عمر کے موجودہ مرحلہ کو اس طرح استعمال کرے کہ وہ اس کے لیے عمر کے اگلے مرحلہ میں کامیابی کا زینہ بن جائے۔
اس کے برعکس نادان وہ ہے جو وقتی اورفانی لذتوں میں گم ہوجائے۔جو’’آج ‘‘میں مشغول ہو کر’’کل ‘‘کو بھول جائے۔ایسا آدمی اس نادان مسافر کی طرح ہے جو ریلوے اسٹیشن کی بنچ خالی پاکر اس پر سوجائے۔وہ اسی طرح بے خبر پڑارہے۔یہاں تک کہ اس کی ٹرین اپنے وقت پر آئے اوراس کو لیے بغیر آگے چلی جائے۔
موجودہ دنیا آخرت کے سفر کاراستہ ہے۔جس طرح ایک عام مسافر اس وقت اپنی منزل پر نہیں پہنچتا جب کہ وہ راستہ کی چیزوں میں کھو گیا ہو۔اسی طرح جو شخص دنیا کی دل فریبیوں میں گم ہوجائے وہ کبھی آخرت کے اعلیٰ مقامات تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔وہ دنیا میں بھٹک کر رہ جائے گااوربالآخر اس کے حصہ میں حسرت کے سوااورکچھ نہیں آئے گا۔