21واں منٹ
موجودہ دنیا میں انسان بظاہر آزادہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ جوچاہے کرے، کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ۔اس صورت حال نے انسان کو غفلت میں ڈال دیا ہے۔ہر آدمی بے خوف بنا ہوا ہے۔ہر آدمی وہ سب کر ڈالنا چاہتا ہے جس کو کرنے کے لیے اس کا دل کہے۔
مگر یہ صورت حال سراسر وقتی ہے۔آدمی کے پاس صرف ایک محدود مدت ہے۔اس خاص مدت کے اندر ہی وہ سر کشی کر سکتا ہے۔ اس مدت کے ختم ہوتے ہی اس کا مالک اسے پکڑلے گا۔اس کے بعد وہ مجبور ہو گا کہ اپنی سرکشی کا انجام ابدی طور پر بھگتتارہے۔
ہوائی جہاز کو اڑانے کے لیے دو پائلٹ ہوتے ہیں ۔21جولائی 1983 کو یہ واقعہ ہوا کہ ایک ہوائی جہاز اٹلانٹک سمندر کے اوپر اڑرہا تھا۔ عین پرواز کی حالت میں اس کے دونوں پائلٹ(ہوا باز) سو گئے اور مسلسل 20 منٹ تک سوتے رہے۔وہ صرف اس وقت بیدار ہوئے جب کہ پائلٹ کیبن میں ایک خاص طرح کا الارم بجنا شروع ہو گیا (ہندوستان ٹائمس، 22جولائی 1983) ۔
یہ ہوائی جہاز کسی اتفاقی سبب سے اپنے روانگی کے مقام پر 12 گھنٹے لیٹ ہو گیا تھا۔اس غیر معمولی حادثہ کی وجہ سے پائلٹ بے حد تھکے ہوئے تھے۔ جب انھوں نے ہوائی جہاز کو اڑایا تو اس کے انجن کو انھوں نے ایک خاص رفتار پر سٹ کر دیا۔اب ہوائی جہاز ایک بندھی ہوئی رفتار پر اڑنے لگا۔ اس دوران میں تھکے ہوئے ہوا بازوں کی آنکھ بند ہو گئی۔ اوروہ مسلسل 20 منٹ تک سوتے رہے۔ یہاں تک کہ کنٹرول کا نظام بگڑ گیا اور ہوائی جہاز کی رفتار غیرمعمولی تیز ہوگئی۔اس کے بعد مشینی نظام کے تحت جہاز کا مخصوص الارم بجنے لگا۔الارم کی وجہ سے پائلٹ جاگ اٹھے اور فوراًانجن کو سنبھال لیا۔
فارن بورو(انگلینڈ) کے ہوائی جرنل(Feedback) میں ایک ہوا باز نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میں یہ سوچ کر کانپ اٹھتا ہوں کہ کیا کچھ ہو سکتا تھا :
I Shudder to think what could have happened.
موجودہ زندگی کو اگر’’ 20‘‘ منٹ کا لمحہ فرض کریں اور اس کے بعد 21 ویںمنٹ کو آخرت میں داخلہ کے ہم معنی قرار دیں توہم کہہ سکتے ہیں کہ قدرت نے انسان کو صر ف 20 منٹ تک غلطی کرنے کی اجازت دی ہے، اگر وہ آخر وقت تک ہوشیار نہ ہو تو قدرت اس کو 21 ویں منٹ میں غلطی کرنے کی اجازت نہ دے گی۔ 20 منٹ کے بعد اس کے لیے یاتو اپنی اصلاح کرلینا ہے یا موت کی گرفتاری۔