تضاد فکری
قرآن میں ارشاد ہواہے:’’اللہ نے کسی آدمی کے اندر دو دل نہیں بنائے اورنہ تمہاری بیویوں کوجن کو تم ماں کہہ بیٹھے ہوتمہاری مائیں بنایا اورنہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے بیٹے بنایا۔یہ تمہارے اپنے منہ کی بات ہے۔اوراللہ حق کہتا ہے اوروہ صحیح راہ دکھاتا ہے۔منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو،یہی پوراانصاف ہے اللہ کے یہاں‘‘ (33:4)۔
قدیم عربوں میں یہ رواج تھا کہ اگر کوئی شخص نادانی میں اپنی بیوی کو ماں کہہ دیتا:أَنْتِ عَلَيَّ كَظَهْرِ أُمِّي(مسند احمد، حدیث نمبر 27319 )تو وہ اس کے لیے حقیقی ماں کی طرح حرام ہوجاتی۔گویا اس لفظ کے بولنے سے وہ سچ مچ اس کی ماں بن گئی ہے۔اسی طرح اگر ایک شخص کسی کو منہ بولا بیٹا (تبنیٰ)بنالیتا تو وہ اس کو صُلبی بیٹے کی طرح سمجھنے لگتے اوراس پروہی احکام صادر کرتے جو حقیقی بیٹے کے لیے ہوتے ہیں ۔اسلام نے اس جاہلی رواج کے خاتمہ کا اعلان کیا۔
’’ایک سینہ میں دو دل ‘‘کا مطلب کسی شخص کا بیک وقت دو متضاد نقطۂ نظر رکھنا ہے۔خدا نے جب انسان کے سینہ میں دو دل نہیں رکھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے سوچنے کے انداز میں بھی دوئی نہیں ہونی چاہیے۔یہ بات خدا ئی اسکیم کے خلاف ہے کہ کوئی شخص بیک وقت دو مختلف اورمتضاد نظریہ کو اپنے اندر جگہ دے۔ایک طرف وہ حقیقی ماں اوربیٹے کو ماں اوربیٹا سمجھے اوردوسری طرف محض زبان سے کسی کو ماں یا بیٹا کہہ دینے کی بنا پر بھی اس کو ماں یا بیٹا ماننے لگے۔
جو شخص ایسا کرے اس نے گویا فکری دوئی کا مظاہرہ کیا۔اس نے ایک طرف ایک حقیقی چیز کو حقیقت سمجھا اوردوسری طرف ایک بے حقیقت چیزکو بھی حقیقت قرار دیا۔یہ متضاد خیالات کو ایک دل میں جگہ دینا ہے جو فطرت کے وحدانی نقشہ کے سراسرخلاف ہے۔یہ سچائی اور تعصب کو ایک ساتھ ماننا ہے۔حقیقت پسندی اورتو ہم پرستی کو بیک وقت اپنے ذہن میں جگہ دینا ہے۔ایک رواجی نقطۂ نظر کو بھی اسی طرح تسلیم کرنا ہے جس طرح خالص عقلی نقطۂ نظر کو تسلیم کرنا چاہیے۔اسی طرح توحید کے عقیدہ کے ساتھ مشرکا نہ خیالات کوماننا ،حقیقت واقعہ اورتو ہمات کو ایک ساتھ اپنے ذہن میں جگہ دینا ،اصولی صداقت کا اقرار کرنے ساتھ شخصیت پرستی کو اختیار کرنا،قرآن کی محکم آیتوں پر عقیدہ رکھتے ہوئے پُرعجوبہ قصے کہانیوں میں مشغول ہونا،سب ایک دل والے سینہ کو دو دل والا سینہ بنانا ہے جو سراسر تضادہے اورایسا ہر تضاد خدا کی اس بے تضاد دنیا میں جگہ پانے کے قابل نہیں ۔