مقبولیت کا راز
بنجامن فرینکلن(Benjamin Franklin)اپنے بچپن میں نااہلی (tactlessness) کے لیے مشہور تھا۔مگر بعد کو اس نے اتنا مقام پیدا کیا کہ وہ امریکاکی طرف سے فرانس میں سفیر بناکر بھیجا گیا۔ اس کی کامیابی کا راز کیا تھا۔صرف یہ کہ تجربات سے اس نے جانا کہ لوگ اپنے خلاف تنقید سے بہت برہم ہوتے ہیں ۔اس نے طے کیاکہ میں کبھی کسی کی کوئی خرابی نہیں بیان کروں گا۔میں ہر ایک کی صرف خوبیاں بیان کروں گا:
I will speak ill of no man and speak all the good I know of everybody.
یہی وجہ ہے کہ بااصول آدمی ہمیشہ سب سے زیادہ مبغوض ہوتا ہے اوربے اصول آدمی کو لوگوں کی نظر میں سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔بااصول آدمی ہمیشہ حق کہتا ہے ،خواہ وہ کسی کے موافق ہویاکسی کے خلاف۔جب کہ بے اصول آدمی ہر موقع کے لحاظ سے وہ بات کہتا ہے جس کو سن کر لوگ خوش ہوجائیں۔سب کی پسند کی بات کہنے کی اسے یہ قیمت ملتی ہے کہ وہ سب کی نظر میں پسند یدہ شخص بن جاتاہے۔
یہ طریقہ تاجر کے لیے یقیناً مفید ہے مگر وہ داعی اورمصلح کے لیے زہر کی حیثیت رکھتا ہے۔اس طرح بولنے والے کے اندر وہ کردارا بھرتا ہے جس کو شریعت کی زبان میں منافق کہا گیا ہے۔وہ ایک ایسا انسان ہوتا ہے جو اند رسے کچھ ہوتا ہے اورباہر سے کچھ۔وہ دل میں ایک چیز کو حق سمجھتا ہے اورزبان سے اس کے خلاف بولتا ہے۔ اس کی عقل اس کو ایک طریقہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے مگر محض اپنی قیادت کو باقی رکھنے کی خاطروہ لوگوں کے سامنے دوسرے طریقہ کی وکالت کرتا ہے۔اس کی آنکھ اس کو جو چیز اندھیرے کی صورت میں دکھاتی ہے اس کو وہ اپنی زبان سے اجالا بناکر پیش کرتا ہے۔ ایسا انسان باعتبار حقیقت ایک مردہ انسان ہے۔اگرچہ بظاہر وہ زندہ اورخوش پوش دکھائی دیتا ہو۔
داعی خدا کا سفیر ہوتا ہے۔مگر دنیوی حکومتوں کے سفیر میں اورخدا کے سفیر میں بہت بڑا فرق ہے۔ دنیوی حکومت کا سفیر وہ بات کہنے کے لیے بھیجاجاتا ہے جس سے لوگ خوش ہوں۔مگر خدا کا سفیر لوگوں کے سامنے اس لیے آتا ہے کہ انہیں وہ بات بتائے جس سے خدا خوش ہوتا ہے۔ایک مصلحت کو سامنے رکھ کر بولتا ہے۔دوسرا حق کے تقاضے کو سامنے رکھ کر بولتا ہے۔خواہ اس کی وجہ سے وہ لوگوں کے درمیان غیر مقبول ہوجائے ۔