آخرت کی پکار
ایک مسئلہ آدمی کے ذہن پر بہت زیادہ چھایا ہواہوتو دوسرے تمام مسائل سے اس کی نظریں ہٹ جاتی ہیں ۔وہ اپنے مخصوص مسئلہ کا اس طرح مبلغ بن جاتا ہے جیسے کہ بس وہی سارا مسئلہ ہے۔اس کے سواکسی اورمسئلہ کا کوئی وجود نہیں ۔
کارل مارکس کے ذہن پر ’’معاش ‘‘کا مسئلہ چھاگیا۔اس کا نتیجہ یہ ہواکہ مذہب ، اخلاق ،فلسفہ ،ہر دوسری چیز کو اس نے نظر اندازکردیا۔ٹالسٹائی کے ذہن پر ’’انسانیت‘‘ کا غلبہ تھا۔اس نے انسانیت کی باتیں اس طرح بتکرارکہیں گویادوسرے سیاسی اوراقتصادی پہلوئوں کی اس کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں ۔ہندستان میں بہت سے لیڈروں پر آزادی وطن کا خیال چھاگیا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دوسری تمام چیزیں ان کے یہاں غفلت کے خانہ میں چلی گئیں۔
یہی معاملہ ایک اورصورت میں حق کے داعی کا ہے۔حق کے داعی کی نظر میں سب سے زیادہ اہمیت آخرت کی ہوتی ہے۔وہ جہنم سے سب سے زیادہ ڈرتا ہے اورجنت کا سب سے زیادہ مشتاق ہوتا ہے۔اس کے قدرتی نتیجہ کے طورپر یہ ہوتا ہے کہ دوسرے تمام مسائل اس کی نظر میں ایسے بن جاتے ہیں جیسے کہ ان کا کوئی وجود نہیں ۔
مزدوراورصنعت کار کے معاملات کیا ہیں ۔ملک پرکس شخص یاکس قوم کی حکومت ہے۔عہدوں کی تقسیم میں کس کو زیادہ حصہ مل رہا ہے اورکس کو کم۔ایک قوم نے دوسری قوم کے خلاف کیا جارحانہ منصوبے بنارکھے ہیں ۔اس طرح کی تمام چیزیں داعی حق کی نظر میں غیر اہم ہوتی ہیں ۔دنیا کے مسائل اس کے لیے اسی طرح ناقابل ذکر بن جاتے ہیں جس طرح عام قائدین کے لیے موت اورآخرت کے مسائل ناقابل ذکر بنے ہوئے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ یہاں صرف دوہی پکار یں ہیں ۔ایک دنیا کی پکار ،دوسری آخرت کی پکار،آج تمام پکارنے والوں کا یہ حال ہے کہ وہ لوگوں کو دنیا کی طرف بلارہے ہیں ۔ وہ لوگوں کو سیاسی اورمعاشی اورسماجی خطرات سے آگاہ کررہے ہیں ۔بظاہر ان میں سے کوئی سیکولر اصطلاحوں میں بول رہا ہے اوراورکوئی مذہب کی اصطلاحوں میں۔مگر حقیقت کے اعتبار سے سب کے سب ایک ہیں ۔کیوں کہ سب کے سب دنیا کے مسائل کو اپنی توجہات کا مرکز بنائے ہوئے ہیں ۔