فیصلہ کے دن
انڈین ایکسپریس بنگلور کی اشا عت مورخہ9 ستمبر1983 کی ایک خبر کاعنوان ہے— چمک دار چیز سونا نہیں :
Glitter is not gold
خبر میں بتایا گیا ہے کہ مس سبل ڈی سلوا(Miss Sybil D'Silva )جو بنگلور میں آرٹیلری روڈ(Artillery Road)پر رہتی ہیں وہ اپنے گھر پر تھیں کہ تقریباً 45سالہ ایک عورت ان کے پاس آئی اس کی گو دمیں چھ مہینہ کا ایک بچہ تھا عورت نے مس ڈی سلوا سے کہا کہ اس کا شوہر بہت زیادہ بیمار ہے اور اس کے علاج کے لیے فوری طور پر 5 ہزار روپیہ کی ضرورت ہے عورت نے سونے کا ایک ہار اپنی جیب سے نکالا اور کہا کہ میں آپ سے بھیک نہیں مانگ رہی ہوں میں صرف اس سونے کے ہار کو بیچنا چاہتی ہوں اگرچہ یہ ہا رمجھے بہت عزیز ہے مگر شوہر کی صحت اس سے زیادہ عزیز ہے اس ہار کی قیمت بازار میں دس ہزار روپے سے کم نہیں ہے میں اپنی ضرورت کی بنا پر آپ کو صرف 5 ہزار روپے میں دے دوں گی۔
مس ڈی سلوا نے ہار لینے سے انکار کیا لیکن عورت اپنی مجبوری بیان کرتی رہی یہاں تک کہ اس نے مس ڈی سلوا کو متاثر کر لیا۔ انھوں نے روپیہ دے کر ہار خریدلیا۔
اگلے دن مس ڈی سلوا بنگلور کی کمرشل اسٹریٹ پر گئیں اور وہاں ایک سنار کو انھوں نے وہ ہار دکھایا۔ سنارنے وہ ہار لے کر اپنی کسوٹی پر جانچا۔ کسوٹی پر جانچنے کے بعد ہار کی حقیقت کھل گئی۔ مس ڈی سلوا نے بنگلور پولیس کو یہ کہانی سناتے ہوئے کہا کہ سنار نے مجھے بتایا کہ یہ تو پیتل ہے :
He told me it was brass
یہی آخرت کا معاملہ بھی ہے۔ موجودہ دنیا میں ہر آدمی اپنے کیے پر مگن ہے ہر آدمی اپنے کام کو سونا سمجھتا ہے۔ مگر کوئی سونا اسی وقت سونا ہے جب کہ وہ سنار کی کسوٹی پر بھی سونا ثابت ہو۔ آخرت میں خدا ہر آدمی کے عمل کو اپنی کسوٹی پر جانچے گا۔ جس کا عمل وہاں کی جانچ میں سونا ثابت ہو اسی کے عمل کی قیمت ہے اور جس کے عمل کے بارے میں یہ کہہ دیا جائے کہ یہ تو پیتل تھا ، اس کا سونااس کے لیے صرف رسوائی اور بربادی کی علامت ہو گا۔ جس چیز کو آدمی آج اتنا قیمتی سمجھے ہوئے ہے کہ وہ اس کو کسی طرح چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ، اس دن وہ اس سے اتنا بیزار ہو گا کہ وہ چاہے گا کہ کوئی ایسی صورت ہو کہ اس کے اور اس کے عمل کے درمیان جدائی ہو جائے مگر اس دن جدائی نہ ہو سکے گی۔ جس چیز کو وہ فخر کی چیز سمجھے ہوئے تھا اس دن وہ اس کے لیے صر ف ذلت اور رسوائی کی چیز بن جائے گی۔