جب سفر ختم ہوگا
ایکسپریس ٹرین لمبا سفر طے کرنے کے بعد منزل پر پہنچ رہی تھی۔سٹرک کے دونوں طرف ظاہر ہونے والے آثار بتارہے تھے کہ آخری اسٹیشن قریب آگیا ہے۔ٹرین کے سینکڑوں مسافروں میں نئی زندگی پیداہوگئی تھی۔کوئی بستر باندھ رہاتھا۔کوئی کپڑے بدل رہاتھا۔کوئی اشتیاق بھری نظروں سے کھڑکی کے باہر دیکھ رہاتھا۔ہر ایک کے دل کی دھڑکن تیز ہورہی تھی ،ہر ایک آنے والے پُر مسرت لمحہ کا منتظر تھا جبکہ وہ ٹرین سے اتر کر اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائے۔
اچانک زور کا دھماکا ہوا۔ایکسپریس ٹرین یارڈمیں کھڑی ہوئی دوسری ٹرین سے ٹکراگئی۔اس کے بعد جو کچھ پیش آیا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں — خوشیاں اچانک غم میں تبدیل ہوگئیں۔زندگیاں موت کی آغوش میں سو گئیں ،امیدوں کے محل کی ایک ایک اینٹ بکھر گئی۔ایک کہانی جس کا اختتام بظاہر طربیہ (Comedy) پر ہور ہاتھا ،اپنے آخری نقطہ پر پہنچ کر اچانک المیہ(Tragedy)میں تبدیل ہوگیا۔
ایسا ہی کچھ معاملہ زندگی کا ہے۔آدمی بے شمار کوششوں کے بعد پُر اعتماد معاشی زندگی بناتا ہے۔وہ اپنے حوصلوں کو ایک بنے ہوئے گھر کی صورت میں تعمیر کرتا ہے۔وہ اپنے لیے ایک کامیاب زندگی کا مینار کھڑاکرتا ہے۔مگر عین اس وقت اس کی موت آجاتی ہے۔اپنے گھر کو سونا چھوڑکر وہ قبر میں لیٹ جاتا ہے۔اس کا چکنا جسم مٹی اورکیڑے کی نذرہوجاتا ہے۔اس کی کوششوںکا حاصل اس سے اس طرح جدا ہوجاتا ہے جیسے آدمی اوراس کے درمیان کبھی کوئی تعلق ہی نہ تھا۔
’’کوٹھی ‘‘کا خواب دیکھنے والا مجبور کردیا جاتا ہے کہ وہ’’قبر ‘‘میں داخل ہو،وہ قبر کے راستہ سے گزرکر حشر کے میدان میں پہنچ جائے۔یہ دوسری دنیا اس کی آرزوئوں کی دنیا سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔یہاں وہ اتنا مفلس ہوتا ہے کہ اس کے جسم پر کپڑابھی نہیں ہوتا۔ اس کی ساری کمائی اس سے جداہوجاتی ہے۔اس کے ساتھی اس سے بچھڑ جاتے ہیں ۔اس کا زور اس سے رخصت ہوجاتا ہے۔ان چیزوں میں سے کوئی چیز وہاں اس کا ساتھ دینے کے لیے موجود نہیں ہوتی جن کے بل پروہ دنیا میں گھمنڈکررہا تھا۔
آہ وہ سفر بھی کیسا عجیب ہے جو عین اختتام پر پہنچ کر حادثہ کا شکار ہوجائے۔