موت کا مرحلہ

موت کا لمحہ تمام قابل قیاس اور نا قابل قیاس لمحات سے زیادہ شدید ہے۔ ہر دوسری مصیبت جس کے لیے آدمی پریشان ہو تا ہے اس مصیبت کے مقابلہ میں ہیچ ہے جو موت کی صورت میں اس کے سامنے آنے والی ہے۔

موت زندگی کے سخت ترین مرحلہ کی طرف سفر ہے یہ کامل بے اختیاری کامل بے سروسامانی اور کامل بے مددگاری کے مرحلہ میں داخل ہونا ہے دنیا کی ہر تکلیف کی ایک حد ہوتی ہے موت ہم کو ایک ایسی دنیا میں  داخل کر دیتی ہے جس کی تکلیفوں اور مصیبتوں کی کوئی حد نہیں ۔

موجودہ دنیا میں  بھی آدمی با اعتبار حقیقت اسی حال میں ہے۔ انسان اپنی ذات کے اعتبار سے اتنا کمزور ہے کہ وہ معمولی نا خوشگواری کو بھی برداشت نہیں  کر سکتا۔ ایک سوئی کا چبھنا، ایک دن کی بھوک پیاس، چند دن کے لیے نیند نہ آنا بھی اس کے پورے وجود کو تڑ پا دیتا ہے۔ تاہم موجودہ دنیا میں اس کو اس کی ضرورت کے مطابق تمام چیزیں حاصل ہیں  ، اس لیے وہ اپنی بے چار گی کو بھولا رہتا ہے وہ اپنی حقیقت سے نا آشنا رہتا ہے۔

اگر آدمی سے موجودہ دنیا چھین لی جائے جہاں پانی اور غذا ہے، جہاں ہوا اور روشنی ہے، جہاںفطرت کی قوتوں کو مسخر کر کے تمدن بنانے کے امکانات ہیں ۔ اگر موجودہ دنیا آدمی سے چھین لی جائے تو خلا کے کسی دوسرے مقام پر وہ اپنے لیے اس قسم کی ایک اور دنیا کی تخلیق نہیں  کر سکتا۔ اس کے بعد اس کا انجام اس کے سواکچھ نہ ہو گا کہ وہ اندھیرے میں بھٹکتا رہے۔ 

دنیا میں آدمی پر مصیبت پڑتی ہے تو وہ آہ واویلا کرتا ہے۔لیکن اگر وہ آنے والے دن کو جانے تو وہ کہے گاکہ خدایا جو کچھ بیت رہا ہے اس سے کہیں  زیادہ سخت ہے وہ جو بیتنے والا ہے۔ دنیا میں آدمی کو عزت اور آرام حاصل ہو تو وہ فخر اور گھمنڈ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ لیکن اگر وہ آنے والے لمحات کو جانے تو وہ کہہ اٹھے گا کہ خدایا اس عزت اور آرام کی کوئی حیثیت نہیں  اگر آنے والے طویل تر مرحلہ میں وہ باقی نہ رہے۔

موت ہماری زندگی کا خاتمہ نہیں  ، وہ ایک نئے مرحلۂ حیات کا آغاز ہے۔ یہ نیا مرحلہ کسی کے لیے تمام مصیبتوں سے زیادہ بڑی مصیبت کا آغار ہو گا اور کسی کے لیے تمام راحتوں سے زیادہ بڑی راحت کا دروازہ۔

موت کے دروازے پر 

موت کا مرحلہ سب سے زیادہ یقینی مرحلہ ہے جس سے آدمی کو لازماً گزرنا ہے۔ یہ تو ممکن ہے کہ کسی کو زندگی نہ ملے مگر جس کو زندگی ملی اس کے لیے موت کا آنا لازمی ہے۔ ہر آدمی جو زندہ ہے وہ ایک روز مرے گا۔ ہر آدمی جو دیکھتا اور بولتا ہے، یقیناً ایک روزاس کی آنکھ بے نور ہو گی اور اس کا بولنا بند ہو جائے گا۔ ہر آدمی پر وہ وقت آتا ہے جب کہ وہ موت کے دروازہ پر کھڑا کر دیا جائے۔ اس وقت اس کے پیچھے دنیا ہو گی اور اس کے آگے آخرت وہ ایک ایسی دنیا کو چھوڑ رہا ہو گا جہاں وہ دوبارہ کبھی نہیں  آئے گا اور ایک ایسی دنیا میں داخل ہو رہا ہو گا جس سے اس کو کبھی نکلنا نصیب نہ ہو گا وہ اپنے عمل کے میدان سے ہٹا کر وہاں ڈال دیا جائے گا جہاں وہ اپنے عمل کا ابدی انجام بھگتتا رہے۔

زندگی ایک بے اعتبار چیز ہے جب کہ موت بالکل یقینی ہے۔ ہم زندہ صرف اس لیے ہیں  کہ ابھی ہم مرے نہیں  ہیں  اور موت وہ چیز ہے جس کا کوئی وقت مقرر نہیں ۔ ہم ہر لمحہ موت کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ ہم زندگی کے مقابلہ میں موت سے زیادہ قریب ہیں  لوگ سمجھتے ہیں  کہ وہ زندہ ہیں  حالاں کہ زیادہ صحیح با ت یہ ہے کہ وہ مرے ہوئے ہیں  وہ موت جس کا وقت مقرر نہ ہو جو ابھی اگلے لمحہ آسکتی ہو وہ گویا ہر وقت آرہی ہے۔ اس کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ وہ آچکی ہے، بجائے اس کے کہ یہ کہا جائے کہ وہ آنے والی ہے۔ اس لیے حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ— اپنے آپ کو قبر والوں میں شمار کرو:وعُدَّ نفسَك في أَهلِ القبورِ(سنن الترمذی، حدیث نمبر2333 )۔

موت ہر چیز کو باطل کر دیتی ہے، وہ ہماری زندگی کا سب سے زیادہ بھیانک واقعہ ہے تا ہم موت اگر صرف زندگی کا خاتمہ ہوتی تو وہ زیادہ بھیانک نہیں  تھی۔ موت کا مطلب اگر صرف یہ ہوتا کہ اب آئندہ کے لیے اس انسان کا وجود نہ رہے گا جو چلتا تھا اور جو دیکھتا اور سنتا تھا تو اپنی ساری ہولنا کیوں کے باوجود یہ صرف ایک وقتی حادثہ تھا نہ کہ کوئی مستقل مسئلہ۔ مگر اصل مشکل یہ ہے کہ موت ہماری زندگی کا خاتمہ نہیں  وہ ایک نئی اور ابدی زندگی کا آغاز ہے۔موت کا مطلب اپنے ابدی انجام کی دنیا میں داخل ہونا ہے۔

ہر آدمی زندگی سے موت کی طرف سفر کررہا ہے۔کسی کا سفر دنیا کی خاطر ہے اورکسی کا آخرت کی خاطر۔ کوئی سامنے کی چیزوں میں جی رہا ہے،کوئی اپنی خواہش اورانا کی تسکین کے لیے دوڑ دھوپ کررہا ہے اورکسی کو خدا کے خوف اورخدا کی محبت نے بے چین کررکھا ہے۔دونوں قسم کے لوگ شام کرتے ہیں  تاکہ وہ اپنی تھکان کو مٹائیں اوراگلے دن دوبارہ صبح کرتے ہیں  تاکہ پسندکی دنیا میں دوبارہ سرگرم ہوجائیں۔موجودہ دنیا میں دونوں بظاہر یکساں نظر آتے ہیں ۔مگر موت کے بعد آنے والی منزل کے اعتبار سے دونوں کا حال یکساں نہیں ۔جو شخص خد ااورآخرت میں جی رہا ہے وہ اپنے کو بچا رہا ہے اورجو شخص دنیا کی دلچسپیوں اوراپنے نفس کی خواہشوں میں جی رہا ہے وہ اپنے کو ہلاک کررہا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom