جب حقیقت کھلے گی
دنیا میں کچھ لوگ وہ ہیں جن کے دل خداکے آگے جھکے ہوئے نہیں ہیں ۔وہ دکھاوے کے لیے خدا کو سجد ہ کرتے ہیں ۔ایسے لوگوں کا حال آخرت میں یہ بتایا گیا ہے کہ وہاں جب کہا جائے گاکہ اپنے رب کو سجدہ کروتو وہاں سجدہ نہ کرسکیں گے(القلم،68:42)۔
سجدہ محض ایک وقتی اوررسمی نوعیت کا جسمانی فعل نہیں ۔وہ اپنے آپ کو حقیقت اعلیٰ کے آگے جھکانا ہے ،وہ اپنی پوری زندگی کو حق وصداقت کے تابع بنا دینا ہے۔اس اعتبار سے دیکھیے تومعلوم ہوگا کہ اس آیت میں محدود معنوں میں صرف ’’سجدہ‘‘کا ذکر نہیں ہے بلکہ یہ آیت پوری زندگی کے بارے میں ایک اہم حقیقت کو بتا رہی ہے۔
موجودہ دنیا میں ہر شخص اورہر قوم کا یہ حال ہے کہ ان کے دل سچائی کے آگے جھکے ہوئے نہیں ہیں ۔ انھوں نے اپنے آپ کو حق کے تابع نہیں بنایا ہے۔مگر ظاہر ی رویہ میں ہر ایک یہ دکھارہا ہے کہ وہ حق پر قائم ہے۔ہر ایک اپنی زبان سے ایسے الفاظ بول رہا ہے گویا کہ اس کا کیس انصاف کا کیس ہے نہ کہ ظلم اوراستغلا ل کا کیس۔
مگر اس قسم کی دھاندلی صرف موجودہ امتحانی دنیا میں ممکن ہے۔آخرت کے آتے ہی پوری صورت حال بالکل بد ل جائے گی۔بازار میں کھوٹے سکے چل سکتے ہیں مگر بینک میں کھوٹے سکے نہیں چلتے۔اسی طرح آخرت میں اس کا امکان ختم ہوجائے گاکہ کوئی جھوٹی بات کو سچے الفاظ میں بیان کرے۔کوئی بے انصافی کے عمل کو انصاف کا عمل ثابت کرے۔
آخرت میں ہوگاکہ الفاظ جھوٹے معانی کو قبول کرنے سے انکار کردیں گے۔کسی کے لیے یہ ممکن نہ ہوگا وہ ظلم کو انصاف بتائے اورباطل کو حق کے لباس میں پیش کرے۔اس وقت ظاہر اورباطن کا فرق ختم ہوجائے گا۔آدمی کی زبان وہی بول سکے گی جو اس کے دل میں ہے۔اس دن ہر آدمی عین اس روپ میں دکھائی دے گا جو باعتبار حقیقت تھا نہ کہ اس روپ میں جو وہ مصنوعی طور پر دوسروں کے سامنے ظاہر کررہاتھا۔
لوگ انسان کے سامنے اپنے آپ کو حق بجانب دکھاکرمطمئن ہیں کہ وہ حق بجانب ثابت ہوگئے۔حالانکہ حق بجانب وہ ہے جو خدا کے سامنے حق بجانب ثابت ہو۔ اور وہاں کا حال یہ ہے کہ وہاں صرف حق حق ثابت ہوگا اورجو باطل ہے وہ وہاں صرف باطل ہوکر رہ جائے گا۔