ہر چیز میں سبق
خواجہ حسن نظامی (1878-1955) کا ایک مضمون ہے’’ مچھر کی کہانی‘‘ خواجہ صاحب نے مچھر سے شکایت کی کہ تم اتنا کیوں پریشان کر رہے ہو۔ ہم کو سونے کیوں نہیں دیتے۔ مچھر نے جواب دیا’’ سونے اور ہمیشہ سونے کا موقع ابھی نہیں آیا ہے۔جب آئے گا تو بے فکر ہو کر سونا۔ابھی تو ہوشیار رہنے اور کچھ کام کرنے کا وقت ہے‘‘ —اگر نصیحت لینے کا ذہن ہو تو مچھر کی بھنبھنا ہٹ میں بھی آدمی کو زندگی کا پیغام مل جاتا ہے۔ اور اگر نصیحت لینے کا ذہن نہ ہو تو بم دھماکے اور ٹینکوں کی گڑ گڑاہٹ بھی جمود کو توڑنے کے لیے ناکافی ہیں ۔ ایسے لوگوں کو قیامت کا طوفان ہی بیدار کر سکتا ہے۔ مگر افسوس کہ قیامت کے طوفان سے بیدار ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ۔کیونکہ وہ بدلہ پانے کا وقت ہو گا نہ کہ عمل کرنے کا۔
قرآن میں کہا گیا ہے کہ— جنتی وہ ہے جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر آئے (26:89) ۔حدیث میں ارشاد ہوا ہے کہ— اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ دے دیتا ہے:مَنْ يُرِدِ اللَهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 71 )۔ اس سے معلوم ہواکہ اللہ کی سب بڑی نعمت یہ ہے کہ آدمی کا ذہن کھلاہوا ہو۔وہ حق کو اس کی اصل شکل میں دیکھ سکے۔وہ نفسیاتی پیچیدگیوں سے آزادہوکر رائے قائم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ایسے آدمی کے سامنے جب کوئی سچائی یا کوئی سبق کی بات آتی ہے تو اس کو سمجھنے میں اسے دیر نہیں لگتی۔وہ اس کو فوراً پالیتا ہے اوراپنی زندگی میں اس کو شامل کرلیتا ہے۔
دنیا میں ہر طرف اللہ کی نشانیاں بکھری ہوئی ہیں ،کہیں جمادات خاموش زبان میں کسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں ۔کہیں ’’مچھر ‘‘اپنی زبان میں کوئی پیغام دیتا ہے۔کہیں انسانوں کے درمیان کوئی واقعہ ہوتا ہے اوراس میں ایک چھپا ہوا سبق موجودہوتا ہے۔کبھی کوئی اللہ کا بندہ کھلی ہوئی نصیحت کی زبان میں کسی امر حق کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ان تمام مواقع پر وہی شخص سچائی کو پائے گا جس نے اپنا سینہ سچائی کے لیے کھلا رکھا ہو۔اگر آدمی کے اندر سبق لینے اوربات کوپکڑنے کا مزاج نہ ہو تو کوئی بھی چیزاسے فائدہ نہیں دے سکتی۔کھلے ذہن کا آدمی ’’مچھر ‘‘سے سبق لے سکتا ہے۔اور جس نے اپنے ذہن کی کھڑکیاں بند کرلی ہوں اس کے لیے خداکی کتاب اوررسول کا کلا م بھی ہدایت کوپانے کے لیے ناکافی ہے — سب سے بڑی چیز سبق لینے کامزاج ہے۔جس شخص کے اندر یہ مزاج پیدا ہوجائے اس کے لیے خدا کی ساری دنیا ایک زندہ کتاب بن جائے گئی۔اور جو اس مزاج سے محروم ہووہ ایک قسم کا جانور ہے جو سب کچھ دیکھنے اورسننے کے بعد بھی نہیں جانتا کہ کیا دیکھا اورکیا سنا۔