عقیدۂ آخرت
جب بارش ہوتی ہے اس کا پانی دریائوں میں بہہ نکلتا ہے۔یہ پانی اگر حد کے اندر ہوتو اس سے انسان کو مختلف قسم کے فائدے حاصل ہوتے ہیں ۔اگر حد سے بڑھ جائے تو سیلاب آجاتا ہے اورنقصانات کا باعث ہوتا ہے۔اس سے بچنے کے لیے دریائوں پر بند بنائے جاتے ہیں ۔
بند (Dam)کا مقصد یہ ہے کہ دریاکے اندر پانی کے بہائو پر روک قائم کی جائے اورجب بھی پانی حدسے بڑھتا ہوا نظر آئے تو اس کے رخ کو موڑ کر دوسری طرف کردیا جائے تاکہ وہ دریا میںبہنے کے بجا ئے علیحدہ بنے ہوئے عظیم گڑھے میں پہنچ جائے جس کو عام طور پر ذخیرۂ آب ( Reservoir)کہا جاتا ہے۔
ایسا ہی کچھ معاملہ انسان کابھی ہے۔مختلف انسان جب مل جل کررہتے ہیں تو بار بار شکایت کی باتیں پیدا ہوتی ہیں ۔ایک دوسرے کے خلاف دلوں میں تلخیاں ابھرتی ہیں ۔اگر اس شکایت اور تلخی کو بڑھنے دیا جائے تو اختلاف،باہمی عناد اورجنگ ومقابلہ کی نوبت آجاتی ہے۔انسانی معاشرہ یا انسانی جماعت کا درست طور پر کام کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔
ان حالات میں انسان کے لیے بھی ایک ایسی چیز کی ضرورت ہے جس کی طرف اس کے بڑھے ہوئے منفی جذبات کو موڑاجاسکے۔خدا اورآخرت کا عقیدہ یہی کام کرتا ہے۔وہ اجتماعیت کو نقصان پہنچانے والے جذبات کو انسان سے ہٹا کر خدا کی طرف موڑ دیتا ہے۔
حضرت یوسف کے سوتیلے بھائیوں نے آپ کو باپ سے جدا کر دیا۔اس کے بعد آپ کے دوسرے بھائی بنیامین کے ساتھ یہی حادثہ پیش آیا۔ان واقعات کے بعد قدرتی طور پر حضرت یوسف کے والد حضرت یعقوب کے اندر شدید جذبات پیدا ہوئے۔آپ اپنے ان جذبات کا نشانہ اگر حضرت یوسف کے سوتیلے بھائیوں کو بناتے تو زبر دست انتشار اوراختلاف پیدا ہوتا۔مگر آپ نے سارے جذبات کو خدا کی طرف موڑ دیا۔آپ نے فرمایا:إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ(12:86)۔یعنی، میں اپنی پریشانی اور اپنے غم کا شکوہ صرف اللہ سے کرتا ہوں۔
یہ کسی انسانی معاشرہ کے لیے عقیدۂ آخرت کی بہت بڑی دلیل ہے۔آخرت کا عقیدہ ہر آدمی کے پاسڈائیورژن پول (Diversion pool)رکھ دیتا ہے جس کی طرف اپنے جذبات کے سیلاب کو پھیر سکے اس کو نقصان ہوتو خدا سے حسن تلافی کی امید قائم کرلے۔اس کو غصہ آئے تو خدا کی خاطر وہ اپنے غصہ کو پی جائے اس کو کسی سے شکایت ہوتو اس کے معاملہ کو خدا کے حوالے کردے۔