شکر کی نفسیات میں جینا
مسلمان ہر روز اپنی نماز میں قرآن کی یہ آیت پڑھتے ہیں:الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (1:1)۔ یعنی ساری حمد صرف اللہ کے لیے ہے جوسارے جہان کا رب ہے۔ حمد کی حقیقت شکر ہے۔’’ساری حمد اللہ کے لیے ہے‘‘کا مطلب یہ ہے کہ سارا شکر اللہ کے لیے ہے۔
قرآن کی اس آیت کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ اس کو صرف زبان سے پڑھ دیا جائے، بلکہ وہ ایک تربیت کا کلمہ ہے۔ وہ ہر روز مسلمان کو ایک حقیقت کی یاد دلاتاہے۔ وہ یہ کہ انسان کو چاہیے کہ وہ روزانہ پیش آنے والے واقعات پر غور کرے۔ وہ واقعات کی ایسی مثبت توجیہ (positive explanation) تلاش کرے، جو اس کو ہر حال میں شکر کرنے والا انسان بنا دے، وہ ہردن اس احساس سے بھرا رہے کہ کائنات کا خالق ایک نہایت مہربان خالق ہے، وہ ہر وقت خالق کے لیے اور تمام انسانوں کے لیے شکر واعتراف کا رسپانس (response) دیتا رہے۔
قرآن کی یہ آیت مومن کی حقیقی تصویر کو بتارہی ہے۔ سچا مومن وہ ہے جو الحمد للہ کی نفسیات میں جیے۔ اس کے برعکس، جو انسان عملاً لا حَمدَ للہکی نفسیات میں جیتا ہو، وہ سچا مومن نہیں۔ وہ زبان سے تو الحمد للہ کہتا ہے، لیکن اس کا دل شکایتی مزاج کی بنا پرعملاً یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ لا حَمدَ للہ، یعنی اللہ کے لیے کوئی حمد نہیں۔ یہ نفسیات منافقت کی نفسیات ہے، نہ کہ ایمان کی نفسیات۔
اس معاملہ کا تعلق حالات کی توجیہ سے ہے۔ جو آدمی حالات کی مثبت توجیہ کرے، وہ الحمد للہ کی نفسیات میں جیے گا، اور جو آدمی حالات کی مثبت توجیہ نہ کرسکے، وہ لاحَمدَ لِلہ کی نفسیات میں جینے والا انسان بن جائے گا۔ الْحَمْدُ لِلهِ شکر کا کلمہ ہے اور لاحَمدَ لِلہ ناشکری کا کلمہ۔گویا کہ الحمد للّٰہ کہنے سے پہلے ایک اور چیز مطلوب ہے،اور وہ ہے الحمد للّٰہ کی شعوری معرفت۔جو آدمی الحمد للّٰہ کہنے سے پہلے اس کی شعوری معرفت حاصل کرچکا ہو، وہی درست طورپر الحمد للہ کہے گا، اور جو آدمی اس شعوری معرفت سے خالی ہو، اس کی زندگی میں الحمد للہ ایک حقیقت کے طورپر شامل نہیں ہوسکتا۔